کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 8
مداخلت اور سرپرستی کا یہ عالم ہے کہ مشرف نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد فوری طور پردسمبر کے پہلے ہفتے میں تین رکنی وفد کو امریکہ بھیج دیا ہے تاکہ ایمرجنسی کی بنا پر پیدا ہونے والی مخالفت کو کم کرکے امریکی لابی کو اپنی حمایت پر برقرار رکھا جاسکے۔ یہ سارا منظر نامہ اہل نظر سے قطعاً مخفی نہیں ہے، اور بہت سے لوگ اس سے کہیں بہتر تجزیہ واستدلال کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں ، لیکن اس مرکزی خیال سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا کہ پاکستان اس وقت شدید سفارتی جنگ کا شکار اور بیرونی مداخلت کا نشانہ ہے۔ ہر اہم واقعے پر امریکی عہدیداروں کی نقل وحرکت اور مراکز ِقوت سے ملاقاتیں ان کے زاویۂ نظر کے مطابق ایک نئے سیٹ اپ کی طرف قدم بڑھا رہی ہوتی ہیں ۔ قومی مفادات اور خود داری پر یہ ایسا بد نما داغ ہے جس کوہر محب ِوطن پاکستانی بری طرح محسوس کرتا ہے! ان حالات میں پاکستان کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس کی قوت کا مرکز پاکستان کے عوام اور قومی مفادات ہوں ۔ ۸ سال کے دورِ اقتدار میں ’اصلاح‘ کے نام پر ہونے والے اقدامات کا خاتمہ اشد ضروری ہے جن کے تسلسل کے لئے صدر مشرف کی صدارت ہی بنیادی ضمانت ہے، اسی لئے ان کے پاس ۵۸ بی، ٹو کی شکل میں نئی حکومت کو کنٹرول کرنے کے وسیع اختیارات بھی موجود ہیں ۔ اسلام اور وطن دوست قوتوں کا اشتراک وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، وگرنہ اسلام کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کے امکانات بظاہر کافی قوی ہیں ۔ سب سے پہلے ۲/ نومبر والی عدلیہ کی بحالی کے بعد صدر کے متنازعہ انتخاب کا خاتمہ، قوم وملت کی اوّلین ضرورت ہے۔ اس کے بجائے سیاسی منظر نامے اور نشستوں کے جوڑ توڑ میں اُلجھا کر اصل مسئلہ کو پس پشت دھکیلا جارہا ہے۔ اس سیاسی تطہیر کے بعد ہی درست منزل کی طرف آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر مشرف کی صدارت، وطن پسند قوتوں کے اختلاف کے نتیجے میں بے نظیر کی وزارتِ عظمیٰ اور امریکہ کی سرپرستی پاکستان کے حالات کو عراق وافغانستان جیسے حالات سے بغیر جنگ کے ہی دوچار کرنے کا سبب بنے گی۔ اللہ ہمارے سیاستدانوں اور محب ِقوم وملت قوتوں کو ذاتی اور وقتی مفادات سے بالا تر ہو کر اجتماعی اور نظریاتی مفادات کے لئے جمع ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین! (حافظ حسن مدنی)