کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 7
واضح کامیابی بھی حاصل نہ کرسکے۔ مزید برآں لبرل قوتوں کے درمیان ایک درمیانی حل پر اتفاق کو پروان چڑھایا گیاکہ مستقبل میں مشرف بطورِ صدر برقرار رہیں اور اُنہیں ایسا وزیر اعظم مل جائے جو امریکی مفادات کاتحفظ یقینی بنا سکے۔ یہ موجودہ حالات اور مفاہمت یوں تو صدر مشرف کے لئے کسی طور سازگار نہیں تاہم اس سے امریکہ نوازی کے عالمی ایجنڈے کی تکمیل پر کوئی زد پڑنے کی بجائے اس میں شدید تیزی پیدا ہوگی، کیونکہ پرویز مشرف کا عہدۂ صدارت پر براجمان رہنا ہی ۸ سالہ ’امریکی کارناموں ‘ کے تسلسل کی اطمینان بخش ضمانت ہے!
علاوہ ازیں امریکہ کے پاکستان میں مفادات اَن گنت ہیں ۔ جہاں پاکستان عالم اسلام میں امریکہ کے خلاف مزاحمت کو کنٹرول میں کرنے کے لئے ایٹمی قوت ہونے کے ناطے ایک بنیادی مہرہ ہے، وہاں افغانستان میں امریکہ کی موجودگی پاکستان ہی کے مرہونِ منت ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے پاکستان میں تعلیمی اور قانونی ومعاشرتی ’اصلاحات‘ کے لئے بلین ڈالروں کی جو امداد کررکھی ہے، ان کے تسلسل کے ساتھ ان کے ذریعے قوم کو آخر کار ہلاکت وبربادی کی طرف لے جانا بھی ضروری ہے۔ امریکہ کے ساتھ حکومت ِپاکستان کے تزویراتی اشتراک نے آج ۸ سال میں پاکستان کو جس قدر غیر مستحکم کردیا ہے، اگر مستقبل میں یہ ’افیر‘ مزید چلتا رہا تو وہ پاکستان کو خاکم بدہن بے وقعت ہونے اور ٹوٹنے کی منزل تک پہنچا کرہی چھوڑے گا۔ درحقیقت چند بلین ڈالروں کی مدد کے ذریعے اور اپنے اثرورسوخ کو بہتر طورپر استعمال کرکے امریکہ عظیم اور طاقتور ترین اسلامی مملکت کونکیل ڈال کر رکھنا چاہتا ہے تاکہ جنگ کے بغیر ہی وہ تمام تر مقاصد حاصل ہوجائیں ۔ مزید برآں مسلم اُمہ میں اتحاد واشتراک کا کوئی خواب پورا ہونا یا کوئی تحریک پیدا ہونا ہی ممکن نہ ہوسکے کیونکہ مسلم اُمہ پاکستان کے بغیر کوئی بھی عالمی مہم چلانے کی پوزیشن میں قطعاً نہیں ہے اور پاکستان اس کوایک رخ دینے کی بھی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے!
سوال پیدا ہوتا ہے کہ سال بھر کے اس منظر نامے، حادثات وسانحات کے رونما ہونے اور حکومتوں کے بننے ٹوٹنے میں کہیں ملت ِاسلامیہ یا پاکستان کا ذاتی مفاد بھی موجود ہے یا نہیں ؟ پاکستان جیسے عظیم ملک کے تمام مسئلے امریکی زاویۂ نظر سے آخر کیوں تشکیل پارہے ہیں ؟ امریکی