کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 4
والا تھا۔ اس کے چند ہی دنوں بعد لال مسجد کے سانحے کا آغاز ہوگیا، قوم پورے ۵ ماہ اس صورتحال سے دوچار رہی اور ۱۰ جولائی کی اذیت ناک صبح سے اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے ملک میں ایک نئے دورِ بربریت کا آغاز ہوگیا۔ حدود قوانین اورسانحۂ لال مسجد کے مقاصد بھی ’آقاے ولی نعمت‘ کی تائید حاصل کرنے کی دیوانہ وار کوشش تھی جس کا تختۂ مشق اسلام اور مسلم عوام کو بننا پڑا۔ اسی دوران ایجنسیوں کی مہربانی سے ہزاروں با عمل مسلمان لاپتہ قراردے دیے گئے جس پر عدالت ِعظمیٰ نے از خود نوٹس لیا۔ اسلام کے نام لیواؤں کو اذیت پہنچانے کی یہ مشقِ ستم سال بھر جاری رہی جس میں وزیر ستان، سوات وغیرہ کے علاقوں میں محبانِ اسلام کو بے دردی سے ہلاکت کا نشانہ بھی بنایا گیا، ان تمام تر ہلاکتوں اور مہم کے پس پردہ بھی سامراج کی عنایتوں کے حصول اور آنکھوں کا تارا بننے کی خواہش موجود تھی۔
جب اللہ کے قوانین اور اللہ کے گھروں (مساجد) کو کھلے عام طنز واستہزا اور تضحیک وتمسخر کا نشانہ بنایا جائے تو آخر کار اللہ کی پکڑ آہی جاتی ہے۔نومبر ۲۰۰۶ء میں بڑی کامیابی سے قانونِ الٰہی کو چیلنج کرنے والا نظام کتنا مضبوط دکھائی دیتا تھا، لیکن وقت نے بتایا کہ ۹ مارچ۲۰۰۷ء کا واقعۂ چیف جسٹس اور۲۰ جولائی کا فیصلۂ سپریم کورٹ تو اللہ کی گرفت کے مراحل تھے جن کو ۱۲/ مئی (کراچی میں سانحۂ ایم کیو ایم) اور ۲۸/ اکتوبر (کراچی میں بے نظیر کی آمد پر دھماکہ)کے ہلاکت خیز واقعات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ کوششیں اور تدبیریں اُلٹی گلے پڑتی گئیں ۔ لال مسجد کے خون آشام سانحے کے بعد تو فوجی اقتدار سنبھل نہ سکا اور اس کے بعد کا ہر دن ہنگاموں اور بے چینیوں کا شکار نظر آیا۔ بعد میں نواز شریف کی واپسی اور بے نظیر کی آمد کے مراحل، ایمرجنسی کے واقعات اور نت نئے آرڈیننسز کو ذہن میں رکھیں تو یہ سب اپنی گرفت کو مضبوط کرنے اور ’مکافاتِ عمل‘ سے چھٹکارا پانے کی ناکام کوششیں تھیں لیکن ہر تدبیر اُلٹی پڑتی گئی اور ۲۸/ نومبر کو جنرل کو اپنے مضبوط اقتدار کی علامت (چھڑی) امریکہ کے ایک اورگریجویٹ جنرل کے ہاتھ میں تھمانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
ہم گذشتہ سال کے واقعات کو دو مختلف تناظر میں دیکھتے ہیں :
1. ایک اللہ کے نظام کو چیلنج کرنا، اللہ کے گھر کی حرمت وتقدس کو پامال کرنا، اللہ کے دین