کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 3
پر قائم ہے جس کے ذریعے دراصل الہٰیت اور شیطانیت کا معرکہ زوروں پر ہے۔ مغرب کا رویہ اور تمام تر ترقی انسانیت اور کائنات کے حقیقی فطری اُصولوں سے متصادم ہے لیکن عالم الأسباب اور عالم الابتلاء کو متوازن بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے جواُصول اس دنیا میں جاری کردیے ہیں ، ان کے گہرے مطالعے اورعمیق مشاہدے کے بعد وہ اُن کا بری طرح استحصال کررہا ہے۔
اِن سطور میں ذکر کردہ ایک ایک دعوے میں مفہوم ومعانی کا ایک جہاں مخفی ہے، لیکن وہ لوگ جنہیں اللہ نے بصیرت دی ہے، وہ اس نقطہ نظر اور تجزیے کے بارے میں تفصیلی شواہد کے محتاج نہیں ۔ اس دور کی تاریخ، قوموں کے رویوں اور رُجحانات اور موجودہ حالات پر ناقدانہ نظر رکھنے والا ہر شخص اِن نتائج تک بآسانی پہنچ سکتا ہے !! ___________
اِن تاثرات کا پس منظر وطن عزیز کے وہ تکلیف دہ حالات ہیں جس کا سامنا ہم بالخصوص سال بھر سے کررہے ہیں ۔پرویز مشرف کے بطورِ صدر منتخب ہوجانے کے مراحل اور انتخاب کے مقاصد پر نظر رکھتے ہوئے اہلیانِ وطن کی بے چارگی کا شدید تکلیف دہ احساس اُبھرتا ہے۔ عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت کے انتہائی حساس معاملات میں جس طرح عالمی سامراج مؤثر دکھائی دیتا ہے، اس سے پوری قوم کی خودی پر ایک ضربِ کاری لگتی ہے۔ اس امر سے مجالِ انکار نہیں کہ غیروں کی یہ بے مہابا دخل اندازی ہماری قومی سیاست کی کمزوری اور اجتماعی کوتاہیوں کا شاخسانہ ہے، وگرنہ سامراج کو اپنے شدید ترین مخالف ممالک مثلاً چین و ایران یا انڈیا میں من مانے تصرف کے اختیارات سرے سے حاصل نہیں ہیں ۔
پرویز مشرف کے بطورِ جنرل اقتدار کا آخری سال حادثوں ، ہنگاموں ، ہلاکتوں اور بحرانوں کا سال ہے۔ان تمام مراحل میں جو چیز سب سے نمایاں ہے، وہ امریکی مفادات کے لئے دیوانہ وار کوشش اور اس کی حمایت حاصل کرنے کی لگاتار جدوجہد ہے، لیکن اس تمام تر کاوش کے باوجود ’صاحب بہادر‘ کی عنایتوں سے محرومی ہی ہمارے ریٹائرڈ جنرل کا مقدر ٹھہرتی ہے!
گذشتہ برس کے یہی مہینے حدود قوانین کے خلاف شدید مہم میں صرف ہوئے اور ۱۵/ نومبر ۲۰۰۶ء کو ایسا قانون پاس کردیا گیا جو اسلام کے بجائے مغربی معاشرت کو تحفظ بلکہ فروغ دینے