کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 26
﴿اللّٰه یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَتَفَکَّرُوْنَ﴾ (الزمر:۴۲) ’’اللہ ہی روحوں کو ان کی موت کے وقت اور جن کی موت نہیں آئی انہیں اُن کی نیند کے وقت قبض کرلیتا ہے پھرجن پر موت کا حکم لگ چکا ہو انہیں تو روک لیتا ہے جبکہ دوسری روحوں کو ایک مقرر وقت تک کیلئے چھوڑ دیتا ہے بلا شبہ اس میں غوروفکر کرنے والوں کیلئے نشانیاں ہیں ۔‘‘ نیند کو اسی لئے اُخت الموت (موت کی بہن) کہا گیا ہے کہ اس میں بھی روح قبض کرلی جاتی ہے۔ایک حدیث میں سونے کی دعا اس طرح ہے: ((اَللّٰھُمَّ بِاسْمِکَ أَمُوْتُ وَأَحْیَا)) ’’اے اللہ تیرے ہی نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ بھی (تیرے ہی نام کے ساتھ) ہوں گا۔‘‘ لہٰذا روزانہ کئی بار نیند میں انسان کی روح قبض ہوتی اور واپس لوٹتی ہے مگر اس عارضی قبض روح کو کسی نے بھی حقیقی موت نہیں کہا۔ اگر ایسا ہے تو پھر روزانہ انسان دو کے بجائے کئی موتوں اور کئی زندگیوں سے ہم کنار ہوتا ہے۔ انسان کے ساتھ دنیا کی اس مستقل زندگی میں کئی مرتبہ قبض اور عودِ روح ہوتا ہے لیکن چونکہ یہ عالم دنیا ہے، اس میں ہر انسان دراصل ایک مستقل زندگی گزار رہا ہے۔ عارضی طور پر قبض روح کو حقیقی موت نہیں کیاجاسکتا۔ جبکہ عالم برزخ میں انسان دراصل ایک حقیقی موت میں ہوتا ہے۔ عارضی طور پر اِعادۂ روح سے کوئی مستقل حیات لازم نہیں آتی جس طرح کہ دنیا میں عارضی طور پر قبض روح سے حقیقی موت لازم نہیں آتی۔ خاتمہ کلام 1. مسئلہ اعادۂ روح برحق ہے کیونکہ اس پر متعدد احادیث دلالت کرتی ہیں ۔ 2. قرآنِ مجید میں کہیں بھی اس کی نفی وارد نہیں ہوئی۔ 3. اہل سنت والجماعت اور سلف صالحین کا بھی یہی مذہب ہے ۔ 4. قبر میں اعادۂ روح دنیا کے اعادے جیسا نہیں لہٰذا اس کی مکمل کیفیت اللہ ہی جانتا ہے۔ 5. قبر میں اعادۂ روح قرآنی اُصول دو زندگیوں اور دو موتوں کے خلاف نہیں ۔