کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 25
التي تقوم فیھا الروح بالبدن وتدبرہ وتصرفہ ویحتاج معھا إلی الطعام والشراب واللباس فھٰذا خطأ کما قال والحس والعقل یکذبہ کما یکذبہ النص وإن أراد بہ حیاۃ أخرٰی غیر ھذہ الحیاۃ بل تُعاد الروح إلیہ إعادۃ غیر الإعادۃ المألوفۃ في الدنیا لیسأل ویمتحن في قبرہ فھذا حق ونفیہ خطأ وقد دل علیہ النص الصحیح الصریح وھو قولہ صلی اللّٰه علیہ وسلم (( فَتُعاد روحہ في جسدہ))
(کتا ب الروح: ص ۵۹،۶۰)
میں (ابن قیم) کہتا ہوں کہ ابن حزم کا جو اعتراض ہم نے بیان کیا ہے، اس میں کچھ باتیں صحیح ہیں اور کچھ غلط۔ ان کا یہ کہنا کہ قبر میں زندہ ہونے کی رائے غلط ہے، اگر اس سے دنیوی زندگی مراد ہے جس میں روح بدن سے قائم ہوتی ہے اور اس میں تصرف کرتی ہے اور بدن اس کی موجودگی میں کھانے پینے اور پہننے کا محتاج ہوتا ہے تو مردے کی ایسی زندگی کی رائے واقعی غلط ہے جس کا نہ صرف نص بلکہ عقل و حس بھی انکار کرتی ہے اور اگر اس سے برزخی زندگی مراد ہے جو دنیوی زندگی کی طرح نہیں ۔ قبر میں روح جسم کی طرف لوٹتی ہے تاکہ امتحان لیا جائے مگر یہ لوٹنا دنیوی لوٹنے جیسا نہیں تو یہ رائے درست ہے اور اِسے غلط کہنے ولا خود غلطی پر ہے کیونکہ اس پر رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ((وتُعَاد روحہ في جسدہ))نص صریح کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
قرآنِ مجید میں انسان کی دو مستقل زندگیوں اور موتوں کا ذکر ہے۔ مستقل زندگی یہ ہے کہ روح باقاعدہ جسم میں داخل ہو کر پورے بدن میں تصرف کرے۔ یہ صورت یا تو دنیا کی زندگی میں ہوتی ہے یا آخرت میں ہوگی۔ لہٰذا مستقل زندگیاں دو ہی ہیں : ایک دنیا کی اور دوسری آخرت کی جبکہ عالم قبر کا معاملہ ایسا نہیں وہاں تو بدن اور روح میں اصل جدائی ہے اور اسی کا نام موت ہے۔ عارضی طور پر کچھ دیر کے لئے روح کے جسم میں لوٹ آنے سے کوئی مستقل زندگی ثابت نہیں ہوسکتی کیونکہ دنیا میں انسان ایک مستقل زندگی بسر کررہاہے۔ اگر عارضی طور پر روح جسم سے جدا ہوجاتی ہے تو اس سے حقیقی موت واقع نہیں ہوتی جیسا کہ نیند کی حالت میں روح قبض کرلی جاتی ہے۔ اللہ کا فرمان ہے :