کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 24
وصرح بمثل ذلک طوائف من الفقھاء والمتکلمین من أصحابنا وغیرھم (أھوال القبور: ص۸۰ جدید)
’’ ان سب ائمہ سلف نے صراحت فرمائی ہے کہ سوالات کے وقت روح کو جسم کی طرف لوٹایا جانا ایک مستند امر ہے اور اسی طرح ہمارے (حنبلی) ساتھیوں میں سے فقہا اور متکلمین کی جماعتوں نے بھی اس کی صراحت کی ہے۔ ‘‘
حضرات علماے کرام کی ان عبارتوں سے معلوم ہوا کہ سلف صالحین کے نزدیک بھی مسئلہ اعادۂ روح برحق ہے اور اس پر ایمان رکھنا اہل سنت والجماعت کا مذہب ہے۔
ایک شبہ اور اس کا جواب
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر قبر میں روح کو اس کے بدن کی طرف لوٹایا جانا تسلیم کر لیا جائے تو اس سے تین زندگیاں اور تین موتیں لازم آتی ہیں ، حالانکہ قرآن مجید میں انسان کی صرف دو موتوں اور دو زندگیوں کا ذکر ہے۔ لہٰذا یہ چیز قرآن کے خلاف ہے،کیونکہ قرآن کریم میں ہے:﴿قَالُوْا رَبَّنَا اَمَتَّنَا اثْنَتَیْنِ وَاَحْیَیْتَنَا اثْنَتَیْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوْبِنَا﴾(المؤمن:۱۱)
’’وہ (کفار) کہیں گے کہ اے ہمارے ربّ! تو نے دوبار مارا اور دوبار ہی زندگی دی۔ اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں ، تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے؟‘‘
جواب:قبر میں عارضی طور پر جسم میں روح لوٹائے جانے کی نفی قرآن مجید میں کہیں بھی نہیں ہے لہٰذا جن احادیث میں عودِ روح کا ذکر ہے اُنہیں قرآن خلاف نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے برعکس قرآنِ مجید میں موت سے لے کر قیامت تک کے درمیان وقفے میں عارضی زندگی پر متعدد امثلہ موجود ہیں جن کی تفصیل سے یہ سطور قاصر ہیں تاہم بعض آیات حسب ِذیل ہیں :
1. سورۃ البقرۃ آیت ۶۷ تا ۷۳ 2. سورۃ البقرۃ آیت ۵۵،۵۶
3. سورۃ البقرۃ آیت ۲۴۳ 4. سورۃ البقرۃ آیت ۲۵۹
علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ ابن حزم کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’قلت ما ذکرہ أبو محمد فیہ حق وباطل أما قولہ مَنْ ظَنَّ أن المیت یَحیا في قبرہ فخطأ، فھذا فیہ إجمال: إن أراد بہ الحیاۃ المعھودۃ في الدنیا