کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 23
جاسکتی جو یہ کہتے ہیں کہ عودِ روح بدن کے بعض حصے کی طرف ہوتی ہے اور نہ ہی ابن حجر کے قول کی طرف التفات کیا جاسکتا ہے جو نصف بدن کی طرف عود کے قائل ہیں ، کیونکہ محض عقلاً ایسا کہنا درست نہیں بلکہ اس میں صحت ِنقل ضروری ہے (جو یہاں مقصود ہے) ۔‘‘ ٭ علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’إن الأرواح تعاد إلی أجساد عند المسألۃ وھو قول الأکثر من أھل السنۃ‘‘ ’’بلا شبہ قبر میں سوال کے وقت ارواح کو ان کے اجساد کی لوٹا دیا جاتا ہے اور یہ قول اہل سنت والجماعت کی اکثریت کا ہے۔‘‘ (عمدۃ القاری ۷/۹۳) ٭ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’وفي حدیث البراء ((فتُعاد روحہ في جسدہ)) حسبک وقد قیل أن السؤال والعذاب إنما یکون علی الروح دون الجسد وما ذکرناہ لک أولاً أصح‘‘ ’’ براء بن عازب کی حدیث میں ہے: پھر روح کو (قبر میں میت کے) جسم کی طرف لوٹا دیا جاتا ہے۔‘‘ اور یہی بات تجھے کافی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ قبر میں سوال اور عذاب صرف روح پر ہی ہوتا ہے ۔ بدن پرنہیں لیکن جو بات ہم نے آپ کو پہلے بتائی ہے، وہی زیادہ درست ہے۔ (التذکرۃص۱۲۱ جدید) ٭ علامہ ابن ابی العز حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’والشرع لا یأتي بما تحیلہ العقول ولکنہ قد یأتي بما تحاد فیہ العقول فان عود الروح إلی الجسد لیس علی وجہ المعھود في الدنیا بل تُعاد الروح إلیہ إعادۃ غیر الإعادۃ المألوفۃ في الدنیا‘‘ (شرح عقیدہ طحاویہ: ص۴۵۰) ’’ شریعت ایسی باتوں کا ذکر نہیں کرتی جس کو عقلیں محال سمجھیں ، البتہ ایسی باتوں کا ذکر (ضرور) کرتی ہے جس میں عقلیں حیران ہوتی ہیں ۔ پس یقین کرلو کہ روح کا جسم میں لوٹایا جانا اس طرح کا نہیں جس طرح دنیا میں معروف ہے بلکہ روح کا اعادہ اس اعادہ کے خلاف ہے جو دنیا میں معلوم ہے۔‘‘ ٭ علامہ ابن رجب حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : فھؤلاء السلف کلھم صرحوا بأن الروح تُعاد إلی البدن عند السؤال