کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 22
القبر یقع علی البدن فقط وإن اللّٰه یخلق فیہ إدراکا بحیث یسمع ویعلم ویلذ و یألم وذھب ابن حزم و ابن ھبیرۃ إلی أن السوال یقع علی الروح فقط من غیر عود إلی الجسد أو بعضہ کما ثبت في الحدیث ولو کان علی الروح فقط لم یکن للبدن بذلک اختصاص ولا یمنع من ذلک کون المیت قد تتفرق أجزاؤہ لأن اللّٰه قادر أن یعید الحیاۃ إلی جزمن الجسد ویقع علیہ السؤال کما ھو قادر علی أن یجمع أجزاء ہ ‘‘ (فتح الباری ۳/۲۹۸)
’’بلا شبہ اس واقعہ سے ابن جریر (مشہور مفسر، محدث اور مؤرخ امام محمد بن جریر طبری کی بجائے محمد بن جریر الکرامی مراد ہے جو فرقہ کرامیہ کا روحِ رواں تھا) اور فرقہ کرامیہ کے ایگ گروہ نے یہ دلیل لی ہے کہ قبر میں سوال صرف بدن سے ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بدن میں ایک ایسا اِدراک پیدا فرما دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ سنتا اور جانتا، لذت اور درد محسوس کرتا ہے جبکہ ابن حزم اور ابن ہبیرہ کا مذہب یہ ہے کہ صرف روح سے بغیر جسم کی طرف لوٹائے سوال ہوتا ہے لیکن جمہور علما نے ان کی مخالفت کی ہے۔ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ روح کو جسم یا اس کے بعض حصے کی طرف لوٹایا جاتا ہے جیساکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کیونکہ اگر یہ ساری کارروائی فقط روح سے وابستہ ہوتی تو بدن کی اس میں کوئی خصوصیت نہ ہوتی (حالانکہ بدن اس میں ملحوظ ہے) اور اس میں بھی کوئی امتناع نہیں کہ کبھی میت کے اجزا بالکل بکھر جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ بدن کے ایک حصے کی طرف روح لوٹا دے اور اس سے سوال ہو جیسا کہ وہ تمام اجزا کے جمع کرنے پر قادر ہے۔‘‘
٭ جسم کے بعض اجزا کی طرف روح لوٹائے جانے والی بات کی تردید کرتے ہوئے ملا علی قاری رقم طراز ہیں :
’’((فتُعاد الروح في جسدہ)) ظاھر الحدیث أن عود الروح إلی جمیع اجزاء بدنہ فلا التفات إلی قول البعض بأن العود إنما یکون إلی البعض ولا إلی قول ابن حجر إلی نصفہ فإنہ لایصح أن یقال من قبل العقل بل یحتاج إلی صحۃ النقل‘‘ (مرقاۃ ۴/۲۵)
حدیث کے الفاظ ((فَتُعاد روحہ في جسدہ))کا ظاہر اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ روح کا لوٹایا جانا سارے بدن کی طرف ہوتا ہے لہٰذا ان چند لوگوں کے قول کی طرف توجہ نہیں کی