کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 19
الروحَ إلی جسدہ،وجاء ہ ملکا القبر فامتحناہ ثم یرتفعان فإذا قامت الساعۃُ انحط علیہ ملکُ الحسنات وملکُ السیئات فانتشطا کتابا معقودا في عنقہ ثم حضرا معہ واحِد سائقٌ وآخَرُ شھیدٌ)) ثم قال رسول اللّٰه ((إن قُدامکم لأمر عظیم ما تقدرونہ فاستعینوا بااللّٰه العظیم)) ( حلیۃ الأولیاء ازابو نعیم ۳/۲۲۱، رقم ۳۷۷۵، بیروت؛ تفسیر الدر المنثوراز سیوطی ۶/۱۲۳ جدید؛ الجامع لأحکام القرآن از قرطبی ۱۷/۱۶ جدید) ’’ابن آدم جس کام کے واسطے پیدا کیا گیا ہے، اس سے بہت غافل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب اس کوپیدا کرنے کا ارادہ کیا تو فرشتہ کو حکم دیا کہ اس کی روزی اور اس کا آنا جانا لکھو، اس کی عمرلکھو، اس کے بدبخت یا نیک بخت ہونے کو لکھو، فرشتہ ان سب کو لکھ کر چلا جاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ دوسرا فرشتہ اس کے پاس بھیجتا ہے تاکہ بالغ ہونے تک اس کی حفاظت کرے جب بالغ ہوتا ہے تو وہ فرشتہ چلا جاتا ہے اور دو فرشتے اللہ تعالیٰ اس پر مقرر کرتا ہے کہ اس کی نیکی اور بدی لکھیں پس جب موت کا وقت آتا ہے تو یہ دونوں چلے جاتے ہیں اور ملک الموت آتے ہیں اور روح قبض کرتے ہیں ۔ جب دفن کیا جاتا ہے تو روح کو اس کے بدن میں ڈالتے ہیں اور قبر کے دو فرشتے منکر اور نکیر آتے ہیں اور اس کا امتحان لے کرچلے جاتے ہیں پھرجب قیامت کا دن آئے گا تو نیکی اور بدی لکھنے والا فرشتے آئے گا اور اس کی گردن میں جونامہ اعمال لٹکایا ہے، اس کو کھولے گا اور ایک فرشتہ آگے سے کھینچتا اور دوسرا فرشتہ پیچھے سے ہنکاتا ہوا میدانِ محشر کی طرف لے جائے گا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے آگے اتنا بھاری کام آنے والا ہے کہ تم لوگ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے لہٰذا اللہ سے مدد طلب کیا کرو۔‘‘ روایت ِمذکور کی صحت اس روایت کی سند کمزور ہے ،کیونکہ اس میں جابر جعفی ضعیف راوی ہے۔ شیخ عبدالرزاق مہدی رقم طراز ہیں : وفي إسنادہ جابر بن یزید الجعفي ضعیف (تفسیر قرطبی ۱۷/۱۶ بتحقیقہ) علاوہ ازیں دیگر کئی ایک روایات بھی مسئلہ اعادۂ روح کے ثبوت پر دلالت کرتی ہیں گو ان کی اسنادی حالت کمزور ہی سہی، تاہم اس سے نفس مسئلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ اس کی تائید