کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 18
فلاں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکیزہ (روح) کے لئے خوش آمدید ہو جو پاک جسم میں رہی ( جنت میں ) داخل ہوجا، تو تعریف کے لائق ہے اور تو اللہ کی رحمت، اس کے عطیات اور ایسے پروردگار سے ملاقات کے لئے خوش ہوجا جو تجھ پر ناراض نہیں ۔ اسے مسلسل یہی کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنچ جاتی ہے جس میں اللہ ہے۔ (لیکن) جب برا شخص فوت ہوتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے ، اے خبیث روح! جو ناپاک جسم میں ہے تو قابل مذمت ہے، باہر نکل ۔ گرم پانی، پیپ اور اس قسم کے دیگر عذابوں کی بشارت قبول کر۔ اس کو مسلسل یہ کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح باہر نکل آتی ہے پھر اس کو آسمان کی جانب چڑھایا جاتا ہے۔ اس کے لئے دروازے کھولنے کا مطالبہ ہوتا ہے۔ دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کون ہے؟ جواب میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں ہے تو (اس کے حق میں ) پیغام ملتا ہے، خبیث روح کو خوش آمدید نہ ہو جو ناپاک جسم میں تھی تو واپس چلی جا تو قابل مذمت ہے، تیرے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھل سکتے۔ چنانچہ اس روح کو آسمان سے پھینک دیا جاتا ہے، پھر وہ قبر میں لوٹ آتی ہے۔‘‘ ٭ امام بوصیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : إسنادہ صحیح رجالہ ثقات (سنن ابن ماجہ وبحا شیتہ مصباح الزجاجۃ ۴/۲۳۵، رقم ۴۳۳۸) ٭ شیخ احمد محمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : إسنادہ صحیح (مسنداحمد ۸/۴۱۴) ٭ دکتوربشارعواد فرماتے ہیں : إسناد ہ صحیح (ابن ماجہ ۵/۶۴۷ بتحقیقہ) ٭ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : صحیح (سنن ابن ماجہ: رقم ۴۲۶۲) ٭ شیخ عبیداللہ رحمانی نے بھی اس حدیث کی سند کو صحیح کہا ہے۔ (مرعاۃ المفاتیح:۵/۳۲۰) 3. سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے سنا: ((إنَّ ابنَ آدمَ لفي غفلۃٍ عمَّا خُلِقَ لہ۔ إن اللّٰه إذا أراد خَلْقَہ قال للملک: اُکتُبْ رِزقہ اُکتب أثرَہ اُکتب أجلہ اُکتب شقیًّا أم سعیدًا ثم یَرْتَفَعُ ذلک الملک ویبعثُ اللّٰه مَلَکًا فیَحفَظَہ حتی یُدرک ثم یرتفع ذلک الملک ثم یُوکلُ اللّٰه بہ ملَکَین یکتُبانِ حسناتہ وسیأتہ فإذا حضرہ الموت ارتفع ذلک الملکان وجاء ملک الموت لیقبض روحہ فاذا أدخل قبرہ رد