کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 17
کے دو مرکزی راویوں یعنی منہال بن عمرو رحمۃ اللہ علیہ اور زاذان رحمۃ اللہ علیہ پر چند الزامات لگاتے ہیں ، جن کا تفصیلی ازالہ ضروری ہے۔ چونکہ فن اصول حدیث کی بحث ایک مستقل موضوع ہے ، لہٰذا اس بحث کو راقم کی اس موضوع پر مستقل کتاب سے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
2. سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((المیِّتُ تَحضُرُہ الملائکۃُ فإذا کان الرجلُ صالحًا قالوا: اُخرجي أیتھا النفس الطیبۃ کانت في الجسد الطیب أُخرجي حمیدۃ وابشري برَوح وریحان ورَبٍّ غیرِ غضبانٍ۔ فلا یزال یقالُ لھا حتی تَخْرُجَ ثم یُعْرَج بھا إلی السماء فیُفتح لھا فیقال من ھذا فیقولون: فلان، فیُقال مرحبا بالنفس الطیبۃ کانت في الجسد الطیب اُدخلي حمیدۃ وابشري بروح وریحان وربٍ غیرِ غضبان فلا یزال یقال لھا ذلک حتی یُنتھٰی بھا إلی السماء التي فیھا ﷲُ۔ فإذا کان الرجلُ السوئُ قال: اُخرجي أیتھا النفسُ الخبیثۃُ کانت في الجسد الخبیث اُخرجي ذمیمۃ، وابشري بحمیمٍ وغسَّاقٍ وآخَر من شَکْلہِ أزواج، فما تزال یقال لھا ذلک حتی تخرج ثم یُعْرَج بھا إلی السمآء فیُفْتَح لھا۔ فیقال: من ھذا؟ فیقال: فلان فیقال: لا مَرْحَبًا بالنفس الخبیثۃِ کانت في الجسد الخبیث، اِرجِعي ذَمیمَۃً فإنھا لا تُفْتَح لک أبواب السمآء فَتُرْسَلُ من السمآئِ ثم تصیرُ إلی القبر))
(سنن ابن ماجہ: کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، رقم :۴۲۶۲ واللفظ لہ؛ مسند احمد ۲/۳۶۴، کتاب الایمان لابن مندہ ص۵۷۷ رقم ۱۰۵۸)
’’جب کسی شخص کی موت قریب ہوتی ہے تو فرشتے اس کے قریب آتے ہیں ۔ اگر (فوت ہونے والا) شخص صالح انسان ہے تو فرشتے کہتے ہیں : اے پاک روح! جو پاک جسم میں تھی، باہر آجا تو قابل تعریف ہے۔ اللہ کی رحمت، ا س کے عطیات اور ناراض نہ ہونے والے پروردگار سے خوش ہوجا۔ مسلسل اس کو یہ کلمات کہے جاتے ہیں یہاں تک کہ روح جسم سے باہر آجاتی ہے۔ بعد ازاں روح کو آسمان کی جانب لے جایا جاتا ہے، اس کے لئے (آسمان کا) دروازہ کھول دیا جاتا ہے۔ دریافت کیا جاتا ہے کہ یہ کون روح ہے؟ فرشتے بتاتے ہیں ،