کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 16
نے روایت کیا ہے۔‘‘ (کتاب الایمان،ص ۵۷۵،بیروت)
٭ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :صحیح (ہدایۃ الرواۃ:۲/۱۹۴)
٭ شیخ حمزہ احمدالزیت فرماتے ہیں :إسنادہ صحیح (مسند احمد:۴/۲۰۲،طبع مصر)
٭ شیخ عبدالرزاق مہدی نے اسے جید قرار دیا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر بتحقیقہ : ۳/۶۷۵)
٭ شیخ محمد عوامہ نے بھی اسکی اسناد کوصحیح قرار دیا ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ بتحقیقہ ۷/۲۸۳)
٭ شیخ شعیب ار ناؤوط فرماتے ہیں :
إسنادہ صحیح، رجالہ رجال الصحیح (مسنداحمد ۳۰/۵۰۳، مؤسسۃ الرسالہ )
’’اس کی سند بھی صحیح ہے اور ا س کے تمام راوی صحیح بخاری کے ہیں ۔ ‘‘
٭ ان ائمہ محدثین اور علما کرام کی مذکورہ بالا تصریحات سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یہ حدیث بلا شبہ صحیح ہے جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الروح کے ایک مقام پر یوں فرمایا:
فالحدیث صحیح لاشک فیہ (کتاب الروح: ص۶۳)
’’یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے صحیح ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ۔ ‘‘
حضرات محدثین اور علماے کرام میں سے کسی ایک نے بھی اس حدیث کو ضعیف قرار نہیں دیا جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ البتہ امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ سے اس مسئلہ میں سہو ہوا جس کی بنا پر اُنہوں نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا۔ چنانچہ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الروح میں ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا خوب تعاقب کیا اور فرمایا کہ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کا یہ موقف علم سے دوری پر مبنی ہے اور اس حدیث کے صحیح ہونے میں کوئی شک نہیں ۔ (کتاب الروح: ص۷۶)
عصر حاضر میں بھی چند خواہش پرست لوگوں نے اس حدیث کو نہ صرف ضعیف کہا بلکہ اُمت کے ایک اجماعی مسئلہ اعادۂ روح کو شرک کی جڑ قرار دیا اور پھر یہیں پر ہی بس نہیں بلکہ اس حدیث ِبراء بن عازب کو بیان کرنے والے محدثین کرام بالخصوص امام احمد بن حنبل جیسی نابغہ روز گار ہستی پر کفر کے فتوے لگا دیے۔ (دیکھیں : دعوتِ قرآن اور یہ فرقہ پرستی)
جیسا کہ گذشتہ سطور میں آپ پڑھ آئے ہیں کہ حدیث ِبراء بن عازب کو قدیم و جدید تقریباً تمام علما نے صحیح قرار دیا ہے تاہم اس کے باوجود بھی اعادۂ روح کے منکرین اس حدیث