کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 15
٭ امام قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : وھو حدیث صحیح لہ طرق کثیرۃ (التذکرۃ: ۱۱۶ طبع جدید) ’’یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے بے شمار طرق ہیں ۔ ‘‘ ٭ امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ھذا حدیث ثابت مشہور مستفیض صحَّحہ جماعۃ من الحفاظ ولا أعلم أحدًا من أئمۃ الحدیث طعن فیہ بل رووہ في کتبھم وتلقَّوہ بالقبول وجعلوہ أصلا من أصول الدین في عذاب القبر ونعیمہ ومسألۃ منکر ونکیر وقبض الأرواح وصعودھا إلی بین یدي اللّٰه ثم رجوعھا إلی القبر ’’یہ حدیث ثابت مشہور اور مستفیض ہے، حفاظِ حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ہمیں حدیث کا کوئی ایسا امام معلوم نہیں جس نے اسے میں طعن کیا ہو، بلکہ ائمہ حدیث تو اسے اپنی اپنی کتب میں لائے ہیں اور اسے قبول کر کے عذاب وثواب قبر،منکر ونکیر کے سوالات، روحوں کے قبض ہونے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے اور پھر قبر میں واپس لوٹانے کے سلسلے میں دین کی بنیادوں میں سے ایک بنیاد قرار دیا ہے۔‘‘ (کتاب الروح ص۴۶) ٭ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : رواہ أحمد ورجالہ رجال الصحیح (مجمع الزوائد:۳/۵۰) ’’ یعنی اس کو امام احمدنے روایت کیا ہے اور اس کے روای بھی صحیح (بخاری) کے راوی ہیں ۔‘‘ ٭ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہذا حدیث صحیح الإسناد (شعب الایمان:۱/۶۱۲) ’’ یہ حدیث صحیح سند والی ہے۔‘‘ ٭ ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں : ہٰذا حدیث کبیر صحیح الإسناد،رواہ جماعۃ الثقات عن الأعمش ’’یہ بڑی حدیث صحیح سند والی ہے، اسے محدثین کی ایک ثقہ جماعت نے امام اعمش سے روایت کیا ہے۔‘‘ (عذاب القبر وسؤال الملکین:ص ۳۹) ٭ امام ابن مندہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ہذا إسناد متصل مشہور رواہ جماعۃ عن البراء ’’اس حدیث کی سند متصل مشہور ہے، اسے سیدنا براء بن عازب سے محدثین کی ایک جماعت