کتاب: محدث شمارہ 316 - صفحہ 14
چنانچہ اس کی روح کو وہاں سے پھینک دیا جاتا ہے۔ (اس کی تصدیق کے لئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی (جس کا ترجمہ ہے) ’’اور جس شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا، اس کو پرندوں نے اُچک لیا یا تیز ہوا نے اس کو دور پھینک دیا۔‘‘(اس کے بعد) اس کی روح کو اس کے جسم میں لوٹا دیا جاتا ہے، اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں ، وہ اس کو بٹھاتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں ، تیرا ربّ کون ہے؟ وہ جواب دیتا ہے، ہائے ہائے! مجھے کچھ علم نہیں (پھر) وہ اس سے دریافت کرتے ہیں ، تیرا دین کیا ہے؟ پھر وہ جواب دیتا ہے: ہائے ہائے ! مجھے کچھ علم نہیں (پھر) وہ اس سے سوال کرتے ہیں ، یہ شخص کون تھا جو تم میں مبعوث کیا گیا تھا؟ وہ جواب دیتا ہے: ہائے ہائے، مجھے کچھ علم نہیں ۔ چنانچہ آسمان سے فرشتہ منادی کرتا ہے کہ یہ شخص جھوٹا ہے، اس کے لئے آگ کا فرش بچھاؤ، دوزخ کی جانب اس کا دروازہ کھولو چنانچہ اس کے پاس اس کی گرمی اور تیز بو آتی ہے۔ اس پر اس کی قبر تنگ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ قبر میں اس کی پسلیاں آپس میں یکجا ہوجاتی ہیں اور اس کے پاس ایک شخص آتا ہے جس کا چہرہ نہایت بدصورت ہوتاہے اور لباس نہایت خوفناک، اس سے بدبو آرہی ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے:تجھے ایسی چیز کی بشارت ہو جو تجھے غمناک کرے گی۔ یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ اس سے دریافت کرتا ہے، تو کون ہے؟ تیرا چہرہ تو نہایت بدصورت ہے جس سے شر ظاہرہورہا ہے۔ وہ جواب دے گا: میں تیرا خبیث عمل ہوں۔ پس وہ کہنا شروع کرے گا، میرے پروردگار ! قیامت قائم نہ فرما۔‘‘ حدیث ِمذکور کی صحت ٭ امام حاکم رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے متعدد طرق نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین فقد احتجا جمیعا بالمنھال بن عمرو وزاذان أبي عمر الکندي وفي ھذا الحدیث فوائد کثیرۃ لأھل السنۃ وقمع للمبتدعۃ (المستدرک:۱/۴۰) ’’یہ حدیث بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح ہے کیونکہ منہال بن عمرو اور ابوعمر زاذان الکندی سے دونوں (بخاری و مسلم) نے استدلال پکڑا ہے اور اس حدیث میں اہل سنت کے لئے بے شمار فوائد موجود ہیں جبکہ اہل بدعت کے عقائد کے قلع قمع کے لئے بھی ثبوت موجود ہیں ۔ ‘‘