کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 9
مریض کو بھی زکوٰۃ کا مستحق سمجھا جاتا ہے، جبکہ مرض کی بناپر زکوٰۃ کا کوئی استحقاق نہیں ۔ چنانچہ ایسا مریض شخص جوصاحب ِاستطاعت ہو، اس پر زکوٰۃ کو صرف کرنا جائز نہیں اور اس امر پر تمام علما میں اتفاق ہے۔(کویتی فقہی انسائیکلو پیڈیا: ۲۳/۳۱۳) جس کی بنیاد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے : ((لا حظ فیہا لغني ولا لقوي مُکتسب)) (سنن ابو داود: ۱۳۹۱’صحیح‘) ’’زکوٰۃ میں مال دار شخص کا کوئی حق نہیں ،نہ ہی کسی قوی، کمانے کی صلاحیت والے کے لئے۔‘‘ مذکورہ بالا ہسپتالوں میں زکوٰۃ کو غریب لوگوں کے علاج تک محدود رکھنے کی بجائے اس سے کئے جانے والے مفت یا بارعایت علاج سے زیادہ تر وہی لوگ فائدہ اُٹھانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جو خود با اثر یا قوی روابط کے حامل ہوں ۔ چونکہ یہاں زکوٰۃ امیر وغریب کے امتیاز کے بغیر، ہر مریض پر صرف کی جاتی ہے، اس بنا پر بھی ان اداروں میں زکوٰۃ جمع کرانا درست نہیں ہے۔ زکوٰۃ سے ہسپتالوں کی عمارت یا مشینری نہیں خریدی جاسکتی! 3. زکوٰۃ کا اوّلین مستحق فقیر یا مسکین شخص ہے کیونکہ یہ بنیادی طورپر مالی عدمِ توازن اور غربت کا ایک مؤثر علاج ہے۔ ایسے ہسپتال جو صرف فقراکے علاج ومعالجے کے لئے ہی مخصوص ہوں یا ان میں زکوٰۃ کو صرف فقراء ومساکین کے لئے مخصوص رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہو، وہاں بھی زکوٰۃ کو ادا کرنے میں بعض احتیاطوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔ زکوٰۃ کا مصرف کسی غریب کا براہِ راست مفاد ہے، بالواسطہ مفاد اس میں شامل نہیں ۔ جیسا کہ آغاز میں ہم ذکر کرآئے ہیں کہ ۸ میں پانچ مصارف اَفراد کے لئے مخصوص ہیں اور غریب ومسکین شخص ان میں سرفہرست ہے۔چنانچہ بعض ہسپتالوں میں زکوٰۃ کی رقم سے مہنگی مشینری خریدی جاتی یا اسے عملے کی تنخواہوں ، تعمیراور دیگر مدات میں صرف کیا جاتا ہے تو یہ بھی زکوٰۃ کے مصارف میں شامل نہیں ہے۔بلکہ اس مشینری یا عمارت اورانتظام وانصرام سے امیروغریب یکساں طورپر، اور اکثر اوقات اُمرا ترجیحی طورپر فائدہ اٹھاتے ہیں ، اس لئے ہسپتالوں اور این جی اوز کو زکوٰۃ دیتے ہوئے شریعت کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ زکوٰۃ کے سلسلے میں حنفی فقہا نے تملیک یعنی فقیر یا مسکین وغیرہ کو بلاعوض مال کا مالک بنا دینا کو بنیادی شرط قرار دیا ہے۔ یہ شرط احناف کے ہاں بنیادی حیثیت رکھتی ہے جس کی بنا پر مال زکوٰۃ کو ہسپتالوں اور مشینری میں لگانے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی ، رد مختار میں ہے ۔