کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 81
ہوتے ہوں ۔
اس طرح ہمارے طلبہ اور مدرّسین دونوں کوعربی الفاظ یا عبارتوں کا مقامی زبان اُردو یا پشتو وغیرہ میں ترجمہ تو یاد رہتا ہے، لیکن عربی الفاظ کی سرسری قراء ت کے بعد اس کے عملی استعمال کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ یوں ہم اپنے تمام اسباق میں اور تمام تعلیمی مراحل میں عربی زبان کو عملاً اور مسلسل ترک کرتے رہتے ہیں ۔
اس لئے ہمارے طلبہ و طالبات بلکہ اساتذہ بھی عربی ایسی آسان زبان کو بھی لکھنے اور بولنے کی معمولی صلاحیت سے قاصر رہتے ہیں ۔ اس فرسودہ طریقۂ تدریس سے عربی زبان مسلسل ’متروک‘ رہتی ہے۔ اس لئے ہمارے سکولوں ، کالجوں ، یونیورسٹیوں اور اسلامی درس گاہوں میں عربی زبان عملاً ’متروک‘ ہے۔ اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جس چیز سے آپ زندگی بھر گریزاں رہیں بلکہ اسے آپ عمداً ترک کریں تو وہ آسان ہونے کے باوجود آپ کو نہیں آئے گی۔
معلّم کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے
میں نے بنیادی عربی زبان کی تعلیم و تدریس کے جن چار مختلف طریقوں کا ذکر کیا ہے، ان سب میں ایسی نصابی کتابوں کی مثالیں دی ہیں جو ہمارے اپنے ملک یا علاقے میں لکھی گئی ہیں اور ان میں ہمارے اداروں اور ہمارے طلبہ و طالبات کی ضروریات اور معیار کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور وہ یہاں زیر تعلیم ہیں ۔ لیکن اسکے باوجود ہرمعلم کی مہارت، تجربے اور محنت کی بدولت اس کاطریقۂ تدریس دوسرے سے یکسر مختلف ہے اور اس کے مقاصد اور نتائج بھی مختلف ہیں ۔ آپ دیکھتے ہیں کہ
٭ تدریس کا پہلا طریقہ بالکل سادہ اور سطحی ہے اور ا س میں عربی عبارت کا صرف لفظی اُردو ترجمہ سکھایاجاتا ہے۔
٭ دوسرے طریقے میں اُردو ترجمہ کے ساتھ منتخب الفاظ کی تشریح سکھائی جارہی ہے۔
٭ جبکہ تیسرا طریقۂ تدریس کئی طرح کی محنت اور منصوبہ بندی سے تیار کیا گیاہے اور اس سے پانچ فوائد کی تکمیل ہورہی ہے:
1. بامحاورہ اُردو ترجمہ، 2. الفاظ کی تشریح، 3. نطق کی تصحیح، 4. عبارت کامکمل فہم اور 5. عربی لکھنے بولنے کی استعداد
٭ اسی طرح چوتھا طریقۂ تدریس بھی بڑی مہارت اور توجہ سے تیار کیا گیاہے۔یہ کسی زبان کی تدریس کا سب سے زیادہ مؤثر اور نہایت کامیاب طریقۂ تدریس ہے، اور تمام مقاصد اور فوائد کی تکمیل کرتا ہے۔ اس سے قارئین اُردو ترجمہ کے بجائے براہِ راست عربی زبان میں غور و فکر کرتے ہوئے اسے پڑھنے، لکھنے اور بولنے کی مہارت حاصل کرتے ہیں ۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاَنْ لَّیْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَاسَعٰی﴾ ’’اور اس حقیقت کو یاد رکھو کہ انسان کو اس کی محنت کے مطابق ہی نتیجہ ملتا ہے۔‘‘ بہرحال یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اور تدریس میں معیاری اور اچھی تدریسی کتاب کے ساتھ معلم کوبنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں لسانِ قرآن سیکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین