کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 7
والا… 4. تالیف ِقلب سے مراد کنبہ / قبیلہ کا ایسا بڑا شخص ہے جس کی بات سنی جاتی ہو، اس تعاون سے اس کے شروضرر میں کمی کا امکان ہو، یا اس صدقہ کے ذریعہ عملاًاس کے اسلام لانے کا قوی امکان ہو…5. گردن آزاد کرنے سے مراد کسی غلام کو آزادی دلانے میں مالی ادائیگی سے مدد کرنا، یا مسلمان قیدیوں کو کفار سے آزاد کرانا وغیرہ… 6. غارم سے مراد ایسا مقروض شخص ہے جس نے اجتماعی یا ذاتی مفاد کے لئے قرضہ لیا لیکن تنگ دستی کی بنا پر وہ اسے ادا کرنے پر قادر نہیں رہا۔آخری دو مصارف 7. فی سبیل اللہ اور 8. مسافر ہیں ۔
٭ قرآنِ کریم نے صدقات کی تقسیم کی جو ترتیب بیان کی ہے، اس کی تقسیم میں بھی یہی ترتیب پیش نظر رکھنی چاہئے یعنی پہلے فقرا، پھر مساکین، پھر اس پر کام کرنیوالے وغیرہ، آخر تک
٭ جو بات یہاں خصوصیت سے قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ زکوٰۃ کو صرف انہی مصارف پر خرچ کیا جاسکتا ہے، جن کا تذکرہ قرآن کریم میں آیا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں مصارفِ زکوٰۃ کی آیت کے شروع میں موجود لفظ إِنَّمَاسے …جو کلمۂ حصرہے… یہی علم ہوتا ہے۔ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک واقعہ اس سلسلے میں بڑا واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زیاد بن حارث صدائی نامی ایک صحابی نے آکر زکوٰۃ میں سے کچھ دینے کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((إن اللّٰه لم یرضَ بحکم نبي ولا غیرہ في الصدقات حتی حَکَمَ ہُو فیہا فجَزَّأہا ثمانیۃ أجزاء فإن کنتَ من تلک الأجزاء أَعطیتُک))
(سنن ابوداود: ۱۶۳۰)
’’اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کے بارے میں کسی نبی وغیرہ کے رجحان (حکم) پر اعتماد نہیں کیابلکہ اس کی تفصیل بذاتِ خود نازل فرمائی۔ چنانچہ اس کو ۸ مصارف میں بانٹ دیا۔ اگر تو اِن ۸ مصارف میں سے کوئی ایک ہے تو پھر میں تجھے بھی دے دیتا ہوں (ورنہ نہیں )۔‘‘
اس فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کے مصارف سلسلے میں کوئی اُمتی تو کجا،نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم بھی تصرف کرنے کے مجاز نہیں ۔ چنانچہ زکوٰۃ صرف انہی مصارف میں خرچ کی جاسکتی ہے جن کا تذکرہ اس آیت میں بیان ہوا ہے، اس کے ماسوا نہیں ۔
٭ اگر کوئی شخص لاعلمی میں کسی ایسے شخص کو زکوٰۃ دے دے جو اس کا حقیقی مصرف نہیں ہے تو متعدد علما کرام کا فتویٰ یہ ہے کہ ایسے شخص کو چاہئے کہ نفع سمیت وہ مالِ زکوٰۃ اس شخص سے واپس لے کیونکہ ایسی صورت میں اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی اور اسے دوبارہ ادا کرنا ہوگی، البتہ فقیر شخص کے سلسلے میں غلطی کھانے پر دوبارہ ادا نہ کرنے کی گنجائش ہے۔(السیل الجرار : ۱/۸۱۶)