کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 6
تعلیم کے نام پر مثلاً ’رِیڈ فاؤنڈیشن‘، بعض ٹی وی میزبان مثلاً عامر لیاقت حسین اپنی والدہ محمودہ سلطانہ فاؤنڈیشن کے نام پر رفاہی خدمات کے لئے ادارے بنائے بیٹھے اور اس کے لئے میڈیا کے تمام ذرائع بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔ اسی نوعیت کے اداروں میں فاطمید اور سندس فاؤنڈیشن وغیرہ جیسے بیسیوں ادارے ہیں جو زکوٰۃ حاصل کرنے کی مہم میں بڑھ چڑھ کر شریک ہیں ۔ آئیے ان ہسپتالوں اور اداروں کے بارے میں اسلام سے رہنمائی لیتے ہیں کہ کیا ان پر زکوٰۃ کو صرف کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ قرآنِ کریم میں سورۃ التوبہ کی آیت نمبر۶۰مصارفِ زکوٰۃ کے بارے میں ہے : ﴿اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآئِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہ﴾ ’’بلاشبہ صدقات توفقرا اورمساکین کے لئے ہیں ، او ران کے لئے جوزکوٰۃ جمع کرنے کے کام پر مامور ہو، جن کی تالیف ِقلب مطلوب ہو، نیز یہ گردنوں کو چھڑانے اور قرضداروں کی مددکرنے اور فی سبیل اللہ میں ، اور مسافروں کے لئے ہیں ۔ یہ اللہ کی طرف سے عائد کیا ہوا فریضہ ہے۔‘‘ اس آیت میں زکوٰۃ کے آٹھ مصارف بیان کئے گئے ہیں جن میں ۱ تا ۴ اور آٹھواں مصرف زکوٰۃ کے ایسے مصارف ہیں جن میں زکوٰۃ افراد کو دی جاتی ہے۔ یعنی فقیر، مسکین،زکوٰۃ جمع کرنے والے، جن کی تالیف ِقلب مقصود ہو اور مسافر … ان متعین افراد کو قرآن کریم نے لِکے ذریعے بیان کیا ہے جس کا لفظی ترجمہ ’ان کے واسطے‘ ہے۔ جبکہ ۵ تا ۷، تین مصارف وہ ہیں جو افراد کی بجائے مدات ہیں ۔ان کو قرآن نے لِـ کی بجائے فِي سے ذکر کیا ہے۔یعنی گردن آزاد کرنے میں ، چٹی پڑنے میں اور فی سبیل اللہ میں ۔ یہی وجہ ہے کہ زکوٰۃ غلام کو نہیں دی جاتی بلکہ اس کے مالک کو ادا کی جاتی ہے، ایسے ہی مقروض کو مال ادا کرنے کے بجائے زکوٰۃ کا مال دراصل قرض دینے والے کو ملتا ہے۔ یہی صورتِ حال فی سبیل اللہ کے بارے میں بھی ہے۔ ان آٹھ مصارف میں شامل افراد یہ ہیں :1. فقیر سے مراد تو ایسا مسلمان ہے جس کے پاس اپنی حاجت وضرورت کا نصف بھی موجود نہ ہو… 2. اور جس کے پاس کچھ مال تو موجود ہو لیکن اس کی ضروری حاجت پوری نہ ہوتی ہو تو وہ مسکین ہے… 3. تیسرا مصرف وہ افراد جو زکوٰۃ کو جمع کرنے والے ہیں ، یعنی وصول کرنے والا، حساب لکھنے اور حفاظت وغیرہ کرنے