کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 5
فریضۂ زکوۃ کی اس قدر اہمیت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے مصارف کو قرآنِ کریم میں واضح طورپر بیان کردیا ہے۔ زکوٰۃ محض ایک صدقہ نہیں ہے جس کو ہر خیر کے کام پر صرف کیا جاسکے بلکہ اس کے مصارف میں متعینہ افراد اور محدود مدات ہی شاملہیں ۔ اگر ان مصارف کو پیش نظر نہ رکھا جائے تو فریضۂ زکوٰۃ سے عہدہ برآ نہیں ہوا جاسکتا۔ ان مصارف کی تفصیل فقہ کی کتب میں بڑی تفصیل کے ساتھ موجود ہے، سردست جو سوال پاکستانی معاشرے میں درپیش ہے، اس حوالے سے ایک مختصر جائزہ پیش خدمت ہے …
وطنِ عزیز میں زکوٰۃ کے حوالے سے اس نئے رجحان کا آغاز عمران خاں کے شوکت خانم ہسپتال سے ہوا اور اُنہوں نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تعاون سے صدقات وزکوٰۃ وصول کرنے کے کام کو پیشہ وارانہ بنیادوں پر ترقی دی۔عمران خان کا قومی کردار تو قابل قدر ہے، البتہ ذاتی طورپر سیتاوائٹ سکینڈل اور ایک یہودی خاندان کی لڑکی سے ان کی شادی اور پھر جدائی نے ان کے اپنے کردار اور شخصی ترجیحات پر بہت سے سوالیہ نشان پیدا کئے ہیں ۔
اس کے بعد، اُن کی دیکھا دیکھی ایک بدنام گلوکار ابرار الحق نے ’سہارا ٹرسٹ‘ کے نام سے نارووال میں ایک ہسپتال قائم کرکے زکوٰۃ جمع کرنے کا کام شروع کیا۔ اُن کے گانے لچر پن اور بیہودگی میں اپنی مثال آپ ہیں جو اسی خاصیت کی بنا پر نہ صرف کئی گلی محلوں میں جھگڑوں کا باعث بن چکے ہیں بلکہ عدالتوں نے بھی اُنہیں عورت کی توہین پر مبنی قرار دیا ہے۔اُنہوں نے اسلام کے تصورِ صدقہ وزکوٰۃ کو مجروح کرنے سے بڑھ کر اُن سے سنگین مذاق کا ارتکاب کیا ہے۔ مثلاًان کا نعرہ ہے کہ ’’قربانی اللہ کے لئے، تفریح آپ کے لئے۔‘‘ کھال کی رسید دکھا کر ابرار الحق کا شومفت دیکھیں ۔یہ آفر اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے کے مترادف ہے!
اسی طرح فلمی اداکارہ اور رقاصہ میرا کی ’شفقت‘ نامی این جی او ہے، جن کا کہنا ہے کہ
’’پاکستان میں ڈانس کلب ہونا بہت ضروری ہیں ، کیونکہ لوگ ڈیپریشن کا شکار ہیں او ران کے لئے تفریح بہت ضروری ہے۔‘‘
گلوکار اور ڈانسر جواد احمد کی تنظیم ’ایجوکیشن فار آل‘ اور شہزاد رائے کی ’شیلٹر‘ نامی این جی او ہے۔ یہ لوگ بدنام پاپ سنگر ہیں جو گاتے ہوئے پورے ہال میں موجود لڑکے اور لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے کر ناچنے او رگانے پر مجبور کرتے ہیں ۔
اِنہی لوگوں کی دیکھا دیکھی بے شمار شہری ہسپتال بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں ۔ بعض