کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 36
تعالیٰ ہر شخص کو اس کی طاقت کے مطابق ہی پابند کرتا ہے۔
اِفطار اور اِمساک
34. جب سورج پوری طرح غائب ہوجائے تو افطار کیا جائے۔ اُفق میں باقی گہری سرخی کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(إذا أقبل اللیل من ھٰھنا وأدبر النھار من ھٰھنا۔۔۔ فقد أفطر الصائم)
’’جب رات مشرق سے نمودار ہونے لگے اور دن مغرب میں چھپ جائے تو روزہ دار افطار کرلے گا۔‘‘ (صحیح بخاری : ۱۹۵۴)
اِفطار میں جلدی کرنا سنت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم افطار کے بعد ہی مغرب کی نماز پڑھتے تھے، خواہ پانی کے چند گھونٹ ہی اِفطار کے لئے ملیں ۔ اگر روزہ دار افطار کے لئے کوئی چیز نہ پائے تو دل سے ہی افطار کی نیت کرلے اور اپنی اُنگلی نہ چوسے جیساکہ بعض عوام کرتے ہیں ۔ وقت سے پہلے افطار سے بچنا چاہئے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض لوگوں کو دیکھا جو اُلٹے لٹکے ہوئے تھے اور اُن کے جبڑوں سے خون بہہ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق پوچھا تو بتایا گیاکہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے افطار کرلیا کرتے تھے۔
35. جب فجر طلوع ہوجائے (فجر سے مراد مشرق کی طرف سے اُفق میں پھیلنے والی سفیدی ہے) تو روزہ دار کو فوراً کھانے پینے سے رُک جانا ضروری ہے۔ اذان سنے یا نہ سنے، اور اگر یہ معلوم ہو کہ مؤذّن طلوعِ فجر کے وقت ہی اذان دیتا ہے تو اذان کے ساتھ ہی کھانے پینے سے رُک جانا ضروری ہے، لیکن اگر مؤذن فجرسے پہلے اذان دیتا ہو تو کھانے پینے سے رکنا ضروری نہیں ۔ اور اگر مؤذن کی حالت کا علم نہ ہو، یا کئی مؤذنوں کے درمیان اختلاف ہو جائے اور خود طلوعِ فجر کا اندازہ نہ لگا سکے (جیسا کہ عام طور پر شہروں میں اونچی بلڈنگوں اور روشنی کے سبب ہوتا ہے) تو ایسی صورت میں احتیاطی طور پر کسی معتمد کیلنڈر یا جنتری وغیرہ پر عمل کرے۔
طلوعِ فجر سے دس پندرہ منٹ پہلے بطورِ احتیاط کھانے پینے سے رُک جانا بدعت ہے، بعض جنتریوں میں فجر اور سحری کا جو الگ الگ وقت دیا جاتا ہے، وہ شریعت کے منافی ہے۔
36. وہ ملک جہاں رات اور دن چوبیس گھنٹے کے ہوتے ہیں ، اگر وہاں رات اور دن کا امتیاز