کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 35
31. جس شخص نے واجب روزہ رکھا جیسے قضا، نذر یا کفارہ کا روزہ تو اسے چاہئے کہ اسے پورا کرے۔ بغیر عذر کے روزہ توڑنا جائز نہیں البتہ نفلی روزے کے بارے میں حکم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے: (الصائم المتطوع أمیر نفسہ إن شاء صام وإن شاء أفطر)(مسند احمد: ۶/۳۴۱) ’’نفلی روزہ رکھنے والے والا خود مختار ہے، چاہے تو پورا کرے یا روزہ توڑ دے۔‘‘ خواہ یہ عمل بلا عذر ہی ہو، اس میں کوئی حرج نہیں ،لیکن بغیر عذر روزہ توڑنے والے کو کیا اس کے روزہ کی حالت میں گزرے ہوئے اوقات کا ثواب ملے گا یا نہیں ؟ اس سلسلے میں بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اسے ثواب نہیں ملے گا، البتہ نفلی روزہ رکھنے والے کے لئے جب تک روز چھوڑنے کی کوئی شرعی مصلحت نہ ہو تو روزہ مکمل کرلینا افضل ہے۔ 32. اگر کسی شخص کو طلوعِ فجر کے بعد رمضان داخل ہونے کا علم ہوا ہو تو ایسے شخص کو چاہئے کہ بقیہ دن کھانے پینے سے رُکا رہے ، اور جمہور علما کے نزدیک اس کے بدلے ایک دن کی قضا کرے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: (من لم یبیت الصیام من اللیلفلا صیام لہ) (سنن نسائی:۲۳۳۳) ’’اس شخص کا روزہ نہیں جس نے رات ہی سے نیت نہ کیا ہو۔‘‘ 33. قیدی شخص نے اگر خود رمضان کا چاند دیکھا ہو یا کسی قابل اعتماد شخص کی خبر سے رمضان کے داخل ہونے کا علم ہوا ہو تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے، ورنہ وہ بذاتِ خود اجتہاد کرے گا اور اپنے غالب گمان کے مطابق عمل کرے گا۔ بعد میں اگر اسے معلوم ہوا کہ اس کا روزہ رمضان کے موافق ہے تو جمہور علما کے نزدیک اس کے لئے یہ کافی ہوگا، اور اگر اس کا روزہ رمضان کی ابتدا کے بعد پڑگیا، تب بھی جمہور فقہاء کے نزدیک کافی ہوگا۔ اور اگر رمضان کی شروعات سے پہلے اس کا روزہ پڑگیا تو کافی نہیں ہوگا بلکہ اس پر (اتنے دنوں کی) قضا واجب ہوگی۔ اگر قیدی شخص کے بعض روزے رمضان کے موافق ہوئے اور بعض نہیں تو جو رمضان یا اس کے بعد شوال کے موافق ہوں گے، وہ کافی ہوں گے، لیکن جو رمضان سے پہلے ہوں گے، وہ کافی نہ ہوں گے اور اگر یہ اشکال مسلسل باقی رہے اور معاملہ کی وضاحت نہ ہوسکے تو اس کے روزے کفایت کرجائیں گے، کیونکہ اس نے معلومات کے لئے بھرپور کوشش کی ہے اور اللہ