کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 34
ہے، اور جس کے روزہ چھوڑنے کا سبب پوشیدہ ہو جیسے حیض تو بہتر ہے کہ وہ پوشیدہ طور پر ہی روزہ چھوڑے، کھلے طور پرنہ کھائے پئے، تاکہ اس پرکسی قسم کی تہمت نہ آسکے۔ روزہ کی نیت 29. ہر واجب روزہ میں نیت ضروری ہے جیسے قضا یا کفارہ کے روزے۔ حدیث میں ہے: ٭ (من لم یبیت الصیام من اللیل فلا صیام لہ) (سنن نسائی:۲۳۳۳) ’’اس شخص کا روزہ نہیں جس نے رات ہی سے روزہ کی نیت نہ کی ہو۔‘‘ رات میں کسی بھی وقت نیت کی جاسکتی ہے خواہ فجر سے ایک منٹ پہلے ہی کیوں نہ ہو۔ نیت کسی کام کے کرنے کے لئے دل کے عزم کا نام ہے، نیت کا زبان سے کہنا بدعت ہے۔ جسے علم ہو کہ کل رمضان ہے اور اس نے روزہ کا ارادہ کرلیا تو یہ اس کی نیت ہوگئی، اور جس نے دن میں روزہ چھوڑنے کی نیت کی اور روزہ نہ چھوڑا، تو راجح قول کے مطابق اس کا روزہ صحیح ہے، جیسے کسی نے نما زمیں بات کرنے کا ارادہ کیا اوربات نہیں کی۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ صرف روزہ توڑنے کی نیت کی بنیاد پر ہی وہ مُفْطرمانا جائے گا لہٰذا اس روزہ کی قضا کرلے تو بہتر ہے۔ مرتد ہوجانے سے نیت باطل ہوجاتی ہے اس مسئلہ میں کسی کا اختلاف نہیں ۔ رمضان میں روزے رکھنے والا روزانہ تجدید ِنیت کا پابند نہیں ، بلکہ مہینہ کے شروع میں نیت کرلے تو کافی ہے۔ سفر یامرض کی وجہ سے روزہ کی نیت چھوڑ کر افطار کرلے، تو پھر عذر ختم ہوجانے کے بعد تجدید ِنیت ضروری ہے۔ 30. مطلق نفلی روزہ کے لئے رات سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، فرماتی ہیں : دخل علي رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ذات یوم فقال: ((ھل عندکم شيئ؟)) فقلنا: لا، قال: ((فإني إذًا صائم)) (صحیح مسلم:۱۱۵۴،مسند احمد :۶/۲۰۷) ’’ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز تشریف لائے اور فرمایا: کیا کھانے کے لئے کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا نہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر میں روزہ رکھ لیتا ہوں ۔‘‘ اگر کوئی خاص نفلی روزہ جیسے عرفہ یا عاشورا کا روزہ ہو تو رات ہی سے نیت کرلینا بہتر ہے۔ ___________________ ٭ امام بخاری ، ترمذی اور نسائی رحمہم اللہ نے اس حدیث کے موقوف ہونے کو راجح قرار دیا ہے ۔