کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 33
مسکین کو کھانا کھلایا جائے گا، اور اگر کوئی رشتہ دار اس کی طرف سے روزہ رکھناچاہے تو جائز ہے۔ کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ)) ’’جو شخص فوت ہوجائے اور اس پر روزے فرض باقی رہ گئے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے گا۔‘‘ (فتاویٰ اللجنۃالدائمۃ،مجلۃ الدعوۃ عدد۸۰۶) عمر رسیدہ، عاجز اور بہت زیادہ بوڑھا شخص 26. عمر رسیدہ بڑھیا اور بہت زیادہ بوڑھا مرد جس کی قوت ختم ہوچکی ہو اور روز بہ روز مزید کمی واقع ہو رہی ہو، ان پر روزہ رکھنا ضروری نہیں ۔ اگر روزہ ان کے لئے مشکل ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتے ہیں ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں : ﴿وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن﴾ (البقرہ :۱۸۴) ’’اور اُس کی طاقت رکھنے والے فدیہ کے طور پر ایک مسکین کو کھانا دیں ۔‘‘ کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ بوڑھے مرد اور عورتیں ہیں جو روزہ نہیں رکھ سکتے تو وہ ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائیں ۔اور جو شخص اتنا بوڑھا ہوچکا ہو کہ اس کے حواس بحال نہ رہے ہوں تو اس پر یا اس کے اہل خانہ پر کوئی چیز بھی واجب نہیں ،کیونکہ وہ اب مکلف نہیں ۔ اور اگر کبھی اچھے بُرے کی تمیز ہو اور کبھی ہذیان بکنے لگے تو حالت ِتمیزمیں تو اس پر روزہ رکھنا واجب ہے، لیکن حالت ِہذیان میں نہیں ۔ ( مجالس شہر رمضان لابن عثیمین ص۲۸) 27. دشمن سے لڑائی ہو، یا دشمن کے شہر کا محاصرہ ہو اور روزہ قتال میں کمزوری کا سبب بن رہا ہو تو ایسی صورت میں بغیر سفر کے بھی افطار جائز ہے، اسی طرح اگر قتال سے پہلے افطار کی ضرورت محسوس ہو تو روزہ توڑ سکتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لڑائی شروع ہونے سے پہلے فرمایا: ((انکم مصبحوا عدوکم والفطر أقوی لکم فافطروا)) ’’تم لوگ صبح کو دشمن سے ملاقات کرنے والے ہو، اور افطار تمہارے لئے باعث ِتقویت ہے لہٰذا روزہ توڑ دو۔‘‘ (صحیح مسلم :۱۱۲۰) 28. جس شخص کے روزہ توڑنے کا سبب ظاہر ہو جیسے مریض تو وہ کھلے طور پراِفطار کرسکتا