کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 32
جس سے ہوش و حواس ختم ہوگئے ہوں تو اگر یہ صورت حال تین دن یا اس سے کم رہے تو وہ سونے والے پر قیاس کرتے ہوئے روزے کی قضا کرے گا، اور اگر یہ مدت اس سے زیادہ ہو تو پاگل پر قیاس کرتے ہوئے روزوں کی قضا نہیں ۔
23. جس شخص کو شدید بھوک یا پیاس لاحق ہوجائے جس سے ہلاکت کا اندیشہ ہو، یا غالب گمان کے مطابق بعض حواس ضائع ہونے کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ سکتا ہے بعد میں اس کی قضا دے دے کیونکہ جان کی حفاظت کرنا واجب ہے۔ البتہ قابل برداشت شدت یا تھکاوٹ یا مرض کے وہم کی بنیاد پر روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، اسی طرح مشقت کا کام کرنے والوں کے لئے بھی روزہ چھوڑنا جائز نہیں ، بلکہ ان کے لئے رات ہی سے روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، روزہ کی حالت میں کام چھوڑنے سے نقصان ہو یا دن کے کسی وقت میں جسمانی نقصان کا ڈر ہو تو روزہ چھوڑ دیں اور بعد میں قضا کریں ۔ طالب علم کے لئے امتحانات روزہ چھوڑنے کے لئے عذر نہیں ہیں ۔
24. جس مریض کو شفا کی اُمید ہو وہ روزہ چھوڑ دے اور شفا کا انتظار کرے اور بعد میں قضا کرے، کھانا کھلانا کافی نہیں ہے۔ البتہ ایسا مریض جسے شفا کی اُمیدنہ ہو، اسی طرح عمر رسیدہ شخص جو روزہ کی طاقت نہ رکھتا ہو، ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے ، یا آدھا صاع اناج دے جو عام طور پر اس شہرکی خوراک ہو (یعنی تقریباً ڈیڑھ کلو اناج) اس فدیہ کو آخر ماہ میں جمع بھی کرسکتا ہے۔ ایک ساتھ تیس مسکینوں کو کھانا کھلا دے، اسی طرح روزانہ ایک مسکین کو بھی کھلا سکتا ہے۔
وہ مریض جس نے روزہ چھوڑا اور اس کی قضا کے لئے شفا کی اُمید لگائے ہوئے ہے، پھرپتہ چلا کہ یہ مرض دائمی ہے تو اس پر واجب ہے کہ ہردن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے، اور جو مریض شفا کے انتظار میں ہو، پھر انتقال ہوجائے تو اس پر یا اس کے اَولیا پر کوئی چیز نہیں ۔
25. اگر کوئی ایسا شخص ہوجو مریض تھا، پھر شفایاب ہوگیا اور قضا کی طاقت رکھتے ہوئے بھی قضا نہیں کیااور اسی حالت میں اس کی موت آگئی تو اس کے مال سے ہر دن کے بدلے ایک