کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 31
جائے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جس دن تم سب لوگ روزہ رکھو، وہ روزہ کا دن ہے اورجس دن تم روزہ چھوڑ دو، وہی افطار کا دن ہوگا۔‘ ‘
اور اگر اس کے روزے اُنتیس سے کم ہوں تو اسے عید کے بعد اُنتیس روزے مکمل کرنے چاہئیں ، کیونکہ ہجری ماہ اُنتیس دن سے کم نہیں ہوتا۔٭
مرض کی بنا پر روزہ رکھنا یا چھوڑنا
21. ہر وہ مرض جس کی وجہ سے انسان مریض سمجھا جائے، اس کی وجہ سے وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے، دلیل اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
﴿ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ﴾ (البقرۃ :۱۸۵)
’’اور جو بیمار ہو یا مسافر تو اسے دوسرے دنوں میں یہ گنتی پوری کرنی چاہئے۔‘‘
معمولی عوارض جیسے کھانسی یا سردرد کی وجہ سے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔ اگر طبی طور سے ثابت ہو یا عادت اور تجربہ سے آدمی کو معلوم ہو یا گمان غالب ہو کہ روزہ سے نقصان ہوگا یامرض میں زیادتی ہوگی یا شفا میں تاخیر ہوگی تو ایسے شخص کے لئے روزہ چھوڑنا جائز ہے بلکہ اس کے لئے روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ مریض کے لئے روزہ کی نیت کرنا جائز نہیں ۔
22. کسی شخص کے لئے روزہ اگر غشی کا سبب بنتا ہو تو اس کے لئے افطار کرنا جائز ہے مگر بعد میں اس پر قضا ضروری ہے۔ دن کے کسی حصہ میں اگر اس پر بے ہوشی طاری ہوجائے، پھر غروبِ آفتاب سے پہلے یا اس کے بعد اسے افاقہ ہوجائے تو اس کا روزہ صحیح ہوگا، کیونکہ اس نے روزہ کی حالت میں صبح کی تھی، لیکن اگر فجر سے لے کر مغرب تک بے ہوشی طاری رہے تو جمہور علما کا خیال ہے کہ اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا۔
جہاں تک ایسے شخص کے روزوں کی قضا کا معاملہ ہے تو اکثر علما کے نزدیک واجب ہے، خواہ بے ہوشی کی مدت کتنی طویل ہی کیوں نہ ہو، اور بعض علما کا فتویٰ ہے کہ جس پر بے ہوشی طاری ہوجائے یا عقل کھو جائے، یا کسی مصلحت کے پیش نظر سکون یا خواب آور دوا دی گئی ہو
___________________
٭ فتاویٰ ابن باز ، فتاویٰ الصیام : ص 15 ، 16 .... طبع دار الوطن ، ریاض