کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 30
16. جو شخص کسی شہر میں پہنچ جائے اور وہاں چار دن سے زیادہ رکنے کی نیت رکھے تو جمہور علما کے نزدیک روزہ رکھنا ضروری ہے، ا س لئے جو شخص تعلیم وغیرہ کے لئے سفر کرتا ہے جہاں پہنچ کر وہ کئی ماہ یا کئی سال قیام کرے گا تو جمہور علما رحمۃ اللہ علیہ اور ائمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ مقیم کے حکم میں ہے، وہ مکمل نماز پڑھے گا اورروزہ بھی رکھے گا۔ اگر مسافر اپنے شہر کے علاوہ کسی دوسرے شہر سے گزرے تو اس پر روزہ رکھنا ضروری نہیں مگر یہ کہ وہ وہاں چار دن٭ سے زیادہ رکنے کی نیت رکھتا ہو تو ایسی صورت میں وہ مقیم کے حکم میں ہوگا۔ (فتاویٰ الدعوۃ از شیخ ابن باز رحمۃ اللہ علیہ : رقم۹۷۷) 17. اگر کسی نے حالت ِاقامت میں روزہ شروع کیا پھر دن کے کسی وقت وہ سفر پر نکل گیا تو وہ روزہ توڑ سکتا ہے۔ ا س لئے کہ اللہ تعالیٰ نے مطلق سفر کو روزہ چھوڑنے کی رخصت کا سبب قرار دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا أوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أیَّامٍ اُخَر﴾ (البقرۃ:۱۸۵) ’’اور جو بیمار ہو یا مسافر تواسے دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرنی چاہئے۔‘‘ 18. جس شخص کی عادت ہی سفر ہو (یعنی مسلسل سفر میں رہتا ہو) جیسے ڈاک کا منشی جو مسلمانوں کی خدمت میں لگا رہتا ہے، یا ٹیکسی ڈرائیور، جہاز کا پائلٹ، اور جہاز میں نوکری کرنے والا تو اُنہیں روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، خواہ ان کا سفر دن بھر کا ہی رہتا ہو، ہاں ان پر قضا ضروری ہے اور یہی حکم ملاح کا بھی ہے جس کی خشکی پر کوئی قیام گاہ ہو۔ 19.دن میں مسافر اگر اپنے گھر پہنچ جائے تو کیا وہ بقیہ دن روزہ کی طرح گزارے گا یا نہیں ؟ اس میں علما کا اختلاف ہے مگر بہتر ہے کہ وہ اس مبارک مہینے کی حرمت کا خیال رکھتے ہوئے کھانے پینے سے رکا رَہے، مگر اس پر قضا ضروری ہے خواہ وہ کھانے پینے سے رُکے یا نہ رُکے۔ 20.کسی ملک میں روزہ شروع کرے پھر دوسرے ملک سفر کرجائے، جہاں لوگوں نے اس سے پہلے یا بعد میں روزہ شروع کیا ہو تو اس پر اُنہی لوگوں کا حکم منطبق ہوگا جن کے پاس اس نے سفر کیا ہے۔ انہی لوگوں کے ساتھ روزہ چھوڑے، اگرچہ تیس سے زائد٭ ہی کیوں نہ ہو ___________________ ٭ صحیح بات یہ ہے کہ مدت سفر جس میں قصر و افطار جائز ہے 19 /دن ہے ۔دیکھیے صحیح بخاری :1080 ٭ تیس روزے پورے ہونے پر مزید روزے رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ۔مترجم