کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 3
والا یہ ایک نیا رجحان ہے، جو شاہراہوں سے بڑھ کر اب اخباروں ، ویب سائٹوں اور متعدد ٹی وی چینلوں تک پھیلتا جارہا ہے۔ دوسری طرف سوے اتفاق سے یہی وہ سال ہیں جن میں اسلام کی خدمت کرنے والے اداروں پر عالمی طاقتوں کی آشیرباد سے عرصۂ حیات تنگ کرنے کی جنونی مہم بھی شروع کی گئی ہے۔ عالم اسلام میں دین کے حوالے سے عظیم خدمات انجام دینے والے اداروں کو نہ صرف بلیک لسٹ / ’بین‘ کردیا گیا بلکہ بینکوں میں ان کے حسابات بھی منجمد کئے گئے۔ ان کے معاونین کو طرح طرح سے دھمکایا گیا اور ان کے حسابات کی جانچ پڑتال کے نام پر اُن میں دخل اندازی کو پروان چڑھایا گیا۔ بظاہر یوں نظر آتا ہے کہ دینی اداروں کی سرگرمیوں کو محدود کرکے اور اُنہیں ڈرا دھمکا کر عوام کے جذبۂ خیر واِنفاق کا رخ محض انسانی مصالح کی طرف موڑا جارہا ہے۔ اس کوشش میں حکومت کے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی شامل ہیں جو سیکولراداروں کے لئے بھاری بھرکم اشتہاری مہم کو سپانسر کرتی ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ وہی ملٹی نیشنل کمپنیاں ہیں جو معاشرے میں فسق وفجور اور اِلحاد واباحیت کو پروان چڑھانے والے میلوں اور تہواروں کو بھی ہائی جیک کرکے مسلم عوام کی اپنی ذہنیت کے مطابق رجحان سازی کا مکروہ کردار ادا کرنے میں پیش پیش ہوتی ہیں ۔ قابل توجہ امر ہے کہ آخری ایک دوسالوں سے یہ رجحان زکوٰۃ سے بڑھ کر دیگر صدقات تک بھی وسیع ہوتا جارہا ہے جیسا کہ گذشتہ برس عید الاضحی کے موقع پر سندھ میں قربانی کی کھالوں کو جمع کرنے والے لوگوں میں ایم کیو ایم کافی متحرک نظر آئی۔ جو جماعت اپنے پھیلائے ہوئے خوف ودہشت کی بنا پر لوگوں سے بھتے لینے میں مشہور ہو، اگر وہ لوگوں سے قربانی کی کھالیں بھی جمع کرنا شروع کردے تو کسی کو کیا مجالِ انکار ہے! اس پر طرہ یہ کہ بعض مقامات پر پیپلز پارٹی نے بھی قربانی کی کھالوں کو جمع کرنے میں دلچسپی دکھائی…! ہماری نظر میں اس سارے عمل کے پیچھے بنیادی مسئلہ لوگوں کی دین سے وابستگی میں کمی، تصورِ دین میں تبدیلی، بے عملی اور اسلامی اَحکامات سے لاعلمی ہے۔اوّل تو عام لوگوں کو زکوٰۃ دینے کی توفیق ہی خال خال ہوتی ہے، اس کے بعد جو لوگ کسی وعظ وتلقین کی بنا پر زکوٰۃ دینے پرآمادہ ہوجاتے ہیں تو اُنہیں یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اسلام کی رو سے ان کے مصارف کیا ہیں ؟ یہ بات بڑے باعمل مسلمانوں کے لئے ایک اچھنبے کی حیثیت رکھتی ہے کہ اسلام کی رو سے زکوٰۃ کے مصارف میں ’مریض‘ یا ’تعلیم‘ سرے سے شامل ہی نہیں ہے۔ غالباً ایم کیوایم یا پیپلز پارٹی