کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 28
وَالْحِجَارَۃُ عَلَیْھَا مَلَائِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰه مَا اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوْمَرُوْنَ﴾ (التحریم:۶) ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں ، جس پرسخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں ۔ اُنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے بلکہ جو کچھ حکم دیا جائے، بجا لاتے ہیں ۔‘‘ بچی کے روزے کے بارے میں اس کی بلوغت کے اوّل مرحلے میں اہتمام ضروری ہے، ممکن ہے کہ ایامِ حیض میں بھی وہ شرم کی وجہ سے روزہ رکھ لے اور پھر اس کی قضا نہ کرے۔ 8. کافر اگر مسلمان ہوجائے یا بچہ بالغ ہوجائے یا مجنون کو افاقہ ہوجائے تو بقیہ دن ان پر کھانے پینے سے بچے رہنا ضروری ہے، اس لئے کہ عذر ختم ہوتے ہی ان پر روزہ واجب ہوگیا۔ رمضان کے جو روزے پہلے گذر چکے ہیں ، اس کی قضا ضروری نہیں ، کیونکہ اس وقت ان پر روزے واجب نہیں تھے۔ 9. پاگل پر کوئی مؤاخذہ نہیں ، اگر کبھی پاگل ہوجاتا ہو اورکبھی ہوش میں آجائے تو صرف ہوش و حواس کی حالت میں اس پر روزہ واجب ہوگا۔ روزہ کی حالت میں دن کے کسی وقت اگر اس پر جنون طاری ہوجائے تو اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا، جس طرح کسی بیماری کی وجہ سے اس پر بے ہوشی چھا جائے تو روزہ باطل نہیں ہوتا، کیونکہ نیت کرتے وقت وہ صاحب ِعقل تھا، لہٰذا اس قسم کے لوگ غشی طاری ہونے والے کے حکم میں ہوں گے۔ 10. رمضان کے دوران جس کا انتقال ہوجائے، اس پر یا اس کے وارثین پر بقیہ ماہ کے روزوں کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ 11.جسے رمضان کے روزے فرض ہونے کا علم نہ ہو، یا روزے میں کھانے اور جماع کرنے کی حرمت کا علم نہ ہو تو اکثر علما اسے معذور سمجھتے ہیں بشرطیکہ اس طرح کے لوگ واقعتا قابل عذر والے ہوں مثلاً نو مسلم ہو، یا ایسا مسلمان جو دارالحرب میں رہتا ہو، یا کافروں کے درمیان پروان چڑھا ہو۔ لیکن جو مسلمانوں کے درمیان پروان چڑھا ہو اور مسئلہ معلوم کرنا اس کے لئے ممکن ہو تو ایسی صورت میں وہ معذور نہیں ہے۔