کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 27
’’چاند دیکھ کر روزہ شروع کرو اور چاند دیکھ کرروزہ چھوڑ دو۔‘‘ لہٰذا اگر بالغ، عاقل اور امانتدار مسلمان جس کی سچائی اور نگاہ پر بھروسہ ہو اور اس نے دیکھنے کا دعویٰ کیا ہو تو ا س کی بات پر عمل کیا جائے گا۔ روزہ کس پر واجب ہے اور کس پر نہیں ؟ 6. ہر بالغ، عاقل، مقیم اور روزہ کی طاقت رکھنے والے مسلمان پر روزہ واجب ہے بشرطیکہ کوئی مانع نہ جیسے حیض، نفاس وغیرہ۔ تین علامتوں میں سے کسی ایک کے ذریعہ بلوغت ثابت ہوجاتی ہے: خروجِ منی، احتلام کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے ،شرمگاہ کے قریب سخت بالوں کا اُگنا یا ۱۵ سال مکمل ہونا، عورت ہو تو مزید ایک اور علامت کا اعتبار ہوگا یعنی حیض کا آنا، جب بھی حیض شروع ہوجائے تو وہ لڑکی بالغ شمار ہوگی اور اس پر روزہ واجب ہوگا خواہ وہ دس سال سے قبل ہی کیوں نہ ہو۔ 7. بچہ سات سال کی عمر میں روزہ کی طاقت رکھتا ہو تواسے روزہ کا حکم دیا جائے گا۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اگر دس سال کی عمر میں روزہ نہ رکھے تو اُسے مارا جائے گا جس طرح نماز ترک کرنے پر مارا جاتا ہے۔ روزہ کا اجر بچے کو اور والدین کو تربیت و تعلیم کا اجر ملے گا، ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں : ’’جب عاشورا کے روزے فرض ہوئے تو ہم اپنے بچوں کو روزہ رکھواتے تھے اور روئی کے کھلونے بناتے۔ جب وہ کھانے کے لئے روتے تو ان کھلونوں سے بہلاتے یہاں تک کہ افطار کا وقت ہوجاتا۔‘‘ (صحیح بخاری: رقم۱۹۶۰) بعض لوگ اپنے بچوں کے روزہ کے سلسلہ میں غفلت برتتے ہیں ، بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کبھی بچہ جوش و جذبہ کے تحت روزہ رکھتا ہے تو اس کے ماں باپ روزہ توڑنے کا حکم دے دیتے ہیں اور اِسے وہ اپنے گمان کے مطابق بچے پر شفقت سمجھ رہے ہوتے ہیں ۔ یہ نہیں خیال کرتے کہ حقیقی شفقت تو روزہ رکھوانے میں ہے، اللہ ربّ العزت کا ارشاد ہے : ﴿یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَقُوْدُھَا النَّاسُ