کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 26
روزے، کفارۂ ظہار کے روزے، رمضان کے دن میں جماع کرنے کے کفارہ کے روزے۔ اسی طرح جس نے مسلسل روزے رکھنے کی نذر مانی ہو،اس پر بھی تسلسل سے روزہ رکھنا ضروری ہے۔
جبکہ بعض روزوں میں تسلسل کی شرط نہیں ہے جیسے رمضان کے روزوں کی قضا، حج میں قربانی نہ کرنے والے کے دس روزے، قسم توڑنے والے پر کفارہ کے روزے (جمہور علماء کے نزدیک)، اور (صحیح قول کے مطابق) احرام کی حالت میں کسی ممنوع چیز کے ارتکاب پر فدیہ کے روزے، اس میں بھی تسلسل ضروری نہیں اور مطلقاً نذر کے روزے جس شخص نے تسلسل کی شرط نہ رکھی ہو۔
3. نفل روزے، فرض روزوں کی کمی کی تلافی کرتے ہیں جیسے عاشورا، عرفہ، ایامِ بیض (یعنی ہر قمری ماہ کی تیرہ، چودہ، پندرہ تاریخ) کے روزے، پیر اور جمعرات کا روزہ اور شوال کے چھ روزے، محرم اور شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا وغیرہ۔
4. فرض کے علاوہ صرف جمعہ کو یا صرف ہفتہ کو خصوصاً روزہ رکھنے کی ممانعت آئی ہے، سارا زمانہ روزہ رکھنا اور صوم و صال یعنی بغیر افطار کے دو یا اس سے زیادہ دنوں تک روزہ رکھنا بھی ممنوع ہے۔
عیدین او رایامِ تشریق (یعنی گیارہ، بارہ، تیرہ ذو الحجہ کے دن) روزہ رکھنا حرام ہے، یہ دن کھانے پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں ۔ جس شخص کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو تو وہ منیٰ میں ان دنوں میں بھی روزہ رکھ سکتا ہے۔
مہینہ کے شروع ہونے کا ثبوت
5. ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے سے رمضان شروع ہوجاتا ہے یا پھر شعبان کے تیس دن مکمل ہوجانے کے بعد رمضان داخل ہوجاتا ہے۔ جس کسی نے خود چاند دیکھا ہو یا کسی قابل اعتماد آدمی سے اس کی خبر ملی ہو تو پھر اس پر روزہ رکھنا واجب ہوجاتا ہے۔
رؤیت کے بغیر صرف حساب کے ذریعہ مہینہ کی شروعات ثابت کرنا بدعت ہے کیونکہ حدیث میں صاف وضاحت ہے: ((صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ))(صحیح بخاری:۱۹۰۹)