کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 24
اہل علم نے اسی بناپر طباعت ِقرآن کے لئے زکوٰۃ کے استعمال کو جائز قرارنہیں کہ یہ زکوٰۃ کے مصارف میں شامل نہیں۔ (فتاویٰ شیخ ابن باز: ۱۴/۲۹۹)
مولانا گوہر رحمن اپنے تفصیلی مقالہ کے خلاصہ پر لکھتے ہیں:
’’مذکورہ بالا تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ دینی مدارس اور دعوتی وتبلیغی تنظیموں اوراداروں کے تمام اخراجات زکوٰۃ فنڈ سے پورے کئے جاسکتے ہیں۔ کتابیں خرید کر وقف کی جاسکتی ہیں، اساتذہ او رعملہ کی تنخواہیں دی جاسکتی ہیں، طلبہ کے وظائف اور خوردونوش پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ دلیل کے اعتبار سے یہی بات قوی ہے کہ جہاد کے مفہوم میں دینی تعلیم اور دعوتی وتبلیغی کام شامل ہیں۔ البتہ ہر قسم کے رفاہی امور اس میں شامل نہیں، اس لئے کہ یہ نیکی کے کام تو ہیں، لیکن جہاد نہیں۔ اسی طرح دنیوی تعلیم کے سکولوں اور کالجوں پر زکوٰۃ صرف نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ نیکی کے کام تو ہیں لیکن شرعی جہاد کے زمرے میں نہیں آتے۔‘‘ (تفہیم المسائل: ۲/۱۲۹، ۱۳۵)
ایک استفتاء کے جواب میں لکھتے ہیں:
’’فی سبیل اللہ کی مد سے دینی کتابوں کی لائبریری بنانا بھی جائز ہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ مطلق علم جہاد نہیں ہے بلکہ دین کا علم جہاد ہے۔ لہٰذا اس لائبریری میں خالص دینی کتب جو بدعات وشرکیات سے پاک ہوں، خرید کر وقف کرسکتے ہیں۔ حنفی مسلک میں زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک فقیر شرط ہے لیکن میرے فہم میں فی سبیل اللہ کی مد میں تملیک کو شرط قرار دینے کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘ (ایضاً : ۴/۳۹۶)
علامہ یوسف قرضاوی دینی تعلیم کی اسی اہمیت کے پیش نظر لکھتے ہیں :
’’اگر کسی مقام پر حالات کا نقشہ یہ ہو کہ تمام تعلیمی ادارے مشنریوں کے قبضے میں ہوں یا اشتراکی تسلط میں ہویا سیکولر تعلیم کے ادارے بن چکے ہوں تو ایک دینی اصلاحی درسگاہ کا قیام ایک عظیم جہاد ہوگا۔ اور اس درسگاہ سے نژادِ نو کو اسلامی فکری تعلیم سے آراستہ کرکے اُنہیں دشمنانِ اسلام کی فکری اور نظریاتی یلغار کے بالمقابل کھڑا کیا جائے گا۔اور اُنہیں اس نہج پر تیار کیاجائے گاکہ وہ مختلف نظاموں ،کتابوں اور لٹریچر میں پھیلے ہوئے زہر کا تریاق دریافت کریں اور اُمت ِمسلمہ کوا س زہر سے محفوظ رکھنے کی سعی کریں ۔ ‘‘ (فقہ الزکوٰۃ: ۲/۱۵۶)
مذکورہ بالا تفصیلی بحث سے یہ امربخوبی ثابت ہوجاتا ہے کہ زکوٰۃ کو اس کے طے شدہ مصارف پر ہی صرف ہونا چاہئے، اس کے بغیر دی جانے والی زکوٰۃ کو دوبارہ ادا کرنا ہوگا۔ اسلام کے بنیادی فریضہ زکوٰۃ کو عام رفاہی کاموں مثلاً تعلیم، مرض اور تجہیز وتکفین پر صرف کرنا شرعاً درست نہیں البتہ جہاد فی سبیل اللہ کی مد میں اسے خرچ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے! (حافظ حسن مدنی)