کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 23
اُمورِ خیر میں زکوٰۃ کا روپیہ صرف خرچ کرنے کی اجازت دیتے ہیں ، اس کی گنجائش ہے کہ مدرسین کی تنخواہیں زکوٰۃسے ادا کردی جائیں ۔ اس میں شک نہیں کہ دینی تعلیم کی وجود وبقا اسلامی عربی مدارس پر ہی موقوف ہے، ان مدارس کی زندگی کا دارومدار آج کل زکوٰۃ پر ہی رہ گیا ہے۔ معاملہ اہم ہے، مگر اس کا فیصلہ حنفیہ کے علماے متدین وموقعہ شناس اجتماعی رائے دے کر ہی دے سکتے ہیں ۔‘‘ (کتاب ’مصر ف زکوٰۃ فی سبیل اللہ‘: ص ۱۶۲)
مشہور حنفی عالم مولانا گوہر رحمن نے مدارس کے عام مصارف پر زکوٰۃ لگنے کا یہ جواب دیا:
’’حنفی مسلک کے مطابق تو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک شرط ہے، اور زکوٰۃ لینے والے کا فقیر ہونا بھی شرط ہے، سوائے عاملین کے۔ اس لئے نادار طلبہ کے علاوہ مدرسے کے دوسرے اخراجات زکوٰۃ سے پورے نہیں کئے جاسکتے۔ لیکن اس موقف کی مجھے حنفی مسلک میں کوئی قوی دلیل معلوم نہیں ہوسکی۔
مصارف زکوٰۃ میں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے، او ردینی تعلیم بھی جہاد کے مفہوم میں شامل ہے بلکہ امام جصاص نے تو جہاد بالعلم کو جہاد بالسیف سے افضل قرار دیا ہے۔٭ چنانچہ تملیک کی شرط فقرا ومساکین کی مد میں تو تسلیم کی جاسکتی ہے، لیکن جہاد کی مد میں اس کے شرط ہونے کی کوئی قوی دلیل موجود نہیں ۔میری ناقص رائے میں دینی مدارس اور دعوتی وتبلیغی تنظیموں کے تمام اخراجات زکوٰۃ سے پوری کئے جاسکتے ہیں ۔‘‘
(تفہیم المسائل: ۲/۱۰۷)
آج اگر بعض ادارے تعلیم کے فروغ کے نام پر سرگرم ہیں تو محض ایک کارِ خیر ہونے کی بنا پر وہ مالِ زکوٰۃ کے مستحق نہیں بنتے، جب تک کہ ان کے پیش نظر تعلیم اس اساسی شرط کی حامل ہو کہ وہ تعلیم اللہ کے دین کو بلند کرنے کے لئے جہاد فی سبیل اللہ کی نوعیت سے ہو۔ دوسرے لفظوں میں قرآن وسنت کی تعلیم تو اس میں شامل ہے، ایسے ہی قرآن وسنت کے علما کو جدید علوم (سائنس وکمپیوٹر وغیرہ) سے مزین کرنا بھی اس میں شامل ہے، کیونکہ ان علوم کو سیکھنے کا مقصد اللہ کے دین کو بلند کرنے کی بہتر صلاحیت حاصل کرنا ہے۔ البتہ اگر کسی تعلیم کا مقصد معاش کمانا یا اپنے اہل وعیال کا حلال روزی سے فرض ادا کرنا ہو تو یہ ایک کارِ خیر تو ہے لیکن جہاد فی سبیل اللہ نہیں ۔ اس بنا پر آغاز میں ذکر کردہ متعدد وجوہ کے علاوہ سیکولر تعلیم اور دیگر مقاصد کیلئے حاصل کئے جانے والے علم کو فی سبیل اللہ شمار کرکے ان پر زکوٰۃ صرف نہیں کی جاسکتی۔ واللہ اعلم
______________
٭ أحکام القرآن از جصاص ۳/۱۱۸ اور زاد المعاد از حافظ ابن قیم: ۲/۳۹،۴۰