کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 22
مذکورہ بالا دلائل اور علما کرام کے اقتباسات سے یہ امر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ فی سبیل اللہ کی مد میں نہ تو ہر خیر کا کام شامل ہے اورنہ ہی یہ صرف جنگی جہاد کے لئے مخصوص ہے، بلکہ اس مد میں جہاد کی تمام صورتیں شامل ہیں ، جن کی مزید صراحت علامہ قرضاوی نے اس اساسی شرط کے ساتھ کردی ہے کہ ان میں اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کی کوئی صورت پائی جاتی ہو۔ اس بنا پر مدارسِ دینیہ اوراسلامی تحریکیں توفی سبیل اللہ کی مد کی وجہ سے مالِ زکوٰۃ کی مستحق ٹھہرتی ہیں ۔ اور ان کے اس استحقاق کی بناپر اس پیچیدگی کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ مدارس میں یہ زکوٰۃ صرف غریب اور فقیر طلبہ پر ہی صرف کی جائے بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انہی مدارس میں صاحب ِنصاب شخصیات کے کئی بچے بھی مفت تعلیم حاصل کرتے اور بعض اوقات وہاں قیام وطعام کی سہولتوں سے بھی مفت فائدہ اُٹھاتے ہیں ۔ اگر وہ زکوٰۃ کا مصرف نہیں ہیں تو پھر اس مال زکوٰۃ کا استعمال ان کے لئے حرام ٹھہرتا ہے۔ اگر بعض متمول لوگ مالِ زکوٰۃ کے سلسلے میں یہ احتیاط کرتے ہیں کہ وہ وہاں سے کسی قسم کا فائدہ نہ اُٹھائیں ، یا اس مال کو مدارس کی تعمیر میں نہ لگایا جائے تو یہ ان کی تقویٰ پر مبنی ذاتی احتیاط٭ ہے، وگرنہ جہاد فی سبیل اللہ… جو ایک مد ہے، محض کسی فرد کا مفاد نہیں … میں شامل ہونے کی بنا پر اس کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ایسے ہی اگر فی سبیل اللہ کا یہی مفہوم ہے کہ یہ اعلاے کلمہ اللہ کی تمام مساعی کو حاوی ہے تو مدارس کے اساتذہ کے مشاہرے بھی اس سے ادا کیے جاسکتے ہیں ، البتہ مساجد کا مسئلہ بعض دیگر وجوہ کی بناپر مال زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہے۔فی سبیل اللہ کے مفہوم میں وسعت و نظر ثانی کی ضرورت ممتاز حنفی علما بھی محسوس کرتے رہے ہیں ، چنانچہ مفتی کفایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے مدرسہ کے اساتذہ کی تنخواہیں کے سلسلے میں ایک فتویٰ دیتے ہوئے لکھا ہے: ’’چونکہ حنفیہ کے نزدیک زکوٰۃ کی ادائیگی کے لئے تملیک ِبلاعوض ضروری ہے اور اس اصل سے عاملین کے سواکوئی مستثنیٰ نہیں ہے، اس لئے حنفی اُصول کے مطابق مدرسین کی تنخواہ زکوٰۃ سے نہیں دی جاسکتی۔ البتہ دیگر ائمہ رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک کے موافق جو تملیک کو ضروری نہیں سمجھتے اور وہ ___________________ ٭ فی سبیل اللہ کو عام مراد لینے کی بجائے بہتر یہی ہے کہ اس سے جہاد فی سبیل اللہ کو مراد لیا جائے جیسا کہ جہاد مراد ہونے پر اتفاق ہے۔ مدرسین کی تنخواہیں، مناظرین اور مبلغین کا کرایہ وغیرہ وغیرہ زکوٰۃ سے ادا ہوسکتے ہیں۔ البتہ غنی طلبہ کو اس سے اس بنا پر احتراز کرنا چاہئے کیونکہ تعلیم وتعلّم یہ جہاد کی ایک مجازی قسم ہے، غنی کواس سے احتراز کرنا بہتر ہے۔ (فتاویٰ اہل حدیث: ۲/۴۹۴تا ۴۹۶،۵۰۴)