کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 21
اوراحادیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ قرآن میں مصارف ِزکوٰۃ سے قبل کلمہ حصر إِنَّمَا کا یہی تقاضا ہے اور احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بعض لوگوں کو زکوٰۃ سے روکنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔ پھر زکوۃ کو آٹھ مصارف میں محدود کرنا بے مقصد ٹھہرتا ہے،کیونکہ اس طرح یہ مد اس قدر وسیع ہو جاتی ہے کہ ہر قسم کے کارِ خیراس میں شامل ہوجاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مختلف علما نے اس موقف کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ چنانچہ علامہ ناصر الدین البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’آیت ِمصارف کی یہ تفسیر کہ اس سے جملہ اعمالِ خیر مراد ہوں ، سلف میں سے کسی سے بھی منقول نہیں ہے۔اگر معاملہ اس طرح ہوتا تو پہر آیت کریمہ میں زکوٰۃ کو صرف آٹھ مصارف میں محدود کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ (تمام المنۃ:۳۸۲) امام ابو عبید قاسم رحمۃ اللہ علیہ بن سلام اپنی کتاب ’الاموال‘ لکھتے ہیں : ’’میت کا قرض ادا کرنے، کفن خرچ مہیا کرنے، مساجد کی تعمیر، نہروں کی کھدائی، اور ان کے مشابہ نیکی کے کاموں میں زکوٰۃ کا مال صرف کرنا، امام سفیان اور اہل عراق ودیگر علما کا اس پر اتفاق ہے کہ کفایت نہیں کرتاکیونکہ یہ اُمور آٹھ مصارف میں شامل نہیں ہیں ۔‘‘(فقرہ: ۱۹۷۹) علامہ قرضاوی نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے کہ زکوٰۃ کو مفادِ عامہ اور رفاہی سرگرمیوں کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا جس کے بعد انہوں نے موضوع پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے دلائل کا موازنہ پیش کرکے اسی رائے کوترجیح دی ہے کہ فی سبیل اللہ کی مد میں بنیادی شرط یہ ہے کہ وہ کام اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لئے ہو۔ مزیدتفصیل کے لئے فقہ الزکوٰۃ: ۱۳۵ تا ۱۵۶ ایمبولینس خریدنا ، یا اسے میت کی تجہیز و تکفین پر خرچ کرنا جیسا کہ ایدھی فاؤنڈیشن والے کرتے ہیں ، ان پر بھی زکوٰۃ کا مال لگانا شرعا درست نہیں ہے ۔ مولانا گوہر رحمٰن لکھتے ہیں : ’’ اگر تو ایمبولینس سے صرف غریب مریض ہی استفادہ کرتے ہوں تو زکوٰۃ ادا ہو جائے گی ، چونکہ مریض کے سلسلے میں امیر و غریب کی احتیاط کے بغیر ایمبولینس کو استعمال کر لیا جاتا ہے اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے عام صدقہ جاریہ سے اعانت کی جائے ۔ لاوارث لاش کو لے جانا اور اس کی تجہیز و تکفین کرنا بہت اچھا رفاہی کام تو ہے ، لیکن یہ زکوٰۃ کے 8 مصارف میں شامل نہیں ہے ۔ بعض لوگوں نے شاذ و نادر اقوال کا سہارا لے کر اور آزادانہ اجتہاد کے ذریعے نیکی اور بھلائی کے ہر کام کو فی سبیل اللہ کی مد میں شامل کیا ہے ، مگر چاروں ائمہ اور اہل ظاہر و اہل تشیع سب کا دلائل کی روشنی میں متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اس مد سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہی ہے ، ہر قسم کے رفاہی کام نہیں ۔‘‘ ( تفہیم المسائل : 2/356)