کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 20
باتیں فی سبیل اللہ کے مصداق میں شامل ہیں جیسا کہ جہاد کے مفہوم میں وسعت پر کئی احادیث دلالت کرتی ہیں ۔ 3. حکومتیں اپنے تحفظ کے لئے بھاری بجٹ منظور کرتی ہیں لیکن دعوتی جہاد کے لئے اکثر ممالک کے بجٹ میں کوئی رقم تجویز نہیں کی جاتی، ان وجوہات کی بنا پر یہ اجلاس کثرتِ رائے سے یہ فیصلہ کرتا ہے کہ دعوت الیٰ اللہ، اس کو تقویت دینے اور اس میں معاون بننے والے جملہ کام آیت میں مذکور فی سبیل اللہ کے معنی میں شامل ہیں ۔‘‘ مختصراً (کتاب ’مصرفِ زکوٰۃ فی سبیل اللہ‘: ص ۲۰۳ تا ۲۰۶) ٭ علامہ یوسف القرضاوی اس موقف کے متعدد دلائل دینے کے بعد لکھتے ہیں : ’’یہ تمام قرائن اس اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ آیت ِمصارف میں فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہی ہے جیسا کہ جمہور کی رائے ہے۔ان دلائل کے پیش نظر میں اس رائے کو ترجیح دیتا ہوں کہ فی سبیل اللہ کا لفظ نہ تو تمام مصالح اور نیک کاموں کو شامل ہو، اور اس میں اس قدر وسعت نہیں ہے اورنہ ہی اس میں اس قدر زیادہ تنگی ہے کہ یہ صرف جنگی جہاد (قتال) کے مفہوم میں محصور سمجھا جائے۔ جہاد تو قلم سے بھی ہوتا ہے اور زبان سے بھی، فکری بھی ہوتا ہے اور تربیتی بھی، اجتماعی بھی اور اقتصادی بھی،سیاسی اور عسکری بھی۔ اور جہاد کی ان جملہ اقسام کے لئے مال اور امداد کی ضرورت ہے۔البتہ اس میں ایک اساسی شرط پایا جانا ضروری ہے کہ جہاد کی ہرنوع میں تائید اور اعلاے کلمۃ اللہ مقصود ہو۔ اس طرح کی ہرجدوجہد ’جہاد فی سبیل اللہ‘ ہے خواہ اس کی کوئی بھی قسم ہو اور خواہ اس میں ہتھیار استعمال کئے جائیں یا نہیں کئے جائیں آج ہمارے اس دور میں ہم ایک اور نوعیت کے غازی تیار کرتے ہیں اور ایک اور قسم کے حفاظتی دستے ترتیب دیتے ہیں تاکہ وہ اسلامی تعلیمات کو علمی اور فکری انداز میں پیش کرکے نظریاتی فتوحات حاصل کرسکیں اور اسلام پر کئے جانے والے حملوں کی بہترین مدافعت کرسکیں ۔‘‘ (فقہ الزکوٰۃ مترجم: ج۲/۱۵۳، ۱۵۴) برصغیر کے ممتاز علما مثلا سید سلیمان ندوی ، مولانا ابو الکلام آزاد ، سید ابو الاعلیٰ مودودی ، مولانا محمد منظور نعمانی اور مولانا امین احسن اصلاحی رحمہم اللہ نے بھی ’ فی سبیل اللہ ‘ کا یہی مفہوم اختیار کیا ہے ۔( بحوالہ ماہنامہ حکمت قرآن : شمارہ جولائی 2004ء ، ص 56) کیا فی سبیل اللہ میں تمام کارِ خیر شامل ہیں ؟ ’فی سبیل اللہ‘ زکوٰۃ کی ایک اہم مد ہے اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ مد ہمہ نوعیت کے کارِ خیر، رفاہی اور فلاحی کاموں تک وسیع ہے لیکن یہ موقف درست نہیں کیونکہ قرآنِ کریم