کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 19
قال اللّٰه تعالی ﴿ فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُم بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا﴾ وسورۃ الفرقان مکیۃ وإنما جاھدھم باللسان والبیان
(مجموع الفتاویٰ:28/38)
’’مکی جہاد علم اور بیان کے ساتھ تھاجبکہ مدنی جہاد،مکی جہادکے ساتھ ساتھ ہاتھ اور تلوار کا جہاد بھی تھا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے:اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی بات نہ مانیں اور ان کے ساتھ اس کے ذریعے بڑا جہاد کریں اور سورۂ فرقان مکی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں مشرکین کے ساتھ زبان اور بیان کا جہاد کیا۔ ‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک فرمان میں طلب ِعلم کو دوٹوک الفاظ میں فی سبیل اللہ قرار دیا ہے:
((من خرج في طلب العلم کان في سبیل اللّٰه حتی یرجع)) (سنن ترمذی:2647)
’’جو شخص طلب علم کے لئے نکلتا ہے، وہ جہاد فی سبیل اللہ میں ہی ہے جب تک وہ لوٹ آئے۔‘‘
’فی سبیل اللہ‘ کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دے کر اسے زکوٰۃ کی ایک مد قرار دینے کا موقف مختلف علمانے اختیار کیا ہے چنانچہ امام طبری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں ’فی سبیل اللہ‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ
’’اس سے مراد اللہ کے دین کی تائید، اسلامی شریعت کی تاسیس پر صرف کرنا فی سبیل اللہ خرچ کرنا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ دشمنان اسلام سے جہاد اور قتال اور کفار سے جنگ اسی جد وجہد کا ایک حصہ ہے۔ کیونکہ کبھی اللہ کے دین کی تائید ونصرت کے لئے قتال او رجنگ کی ضرورت بھی پیش آجاتی ہے۔ بلکہ بعض حالات میں یہی ایک ناگزیر طریقہ رہ جاتا ہے جس سے نصرتِ دین ہوسکتی ہے۔لیکن ایسے بھی ادوار آتے ہیں کہ جن میں نظریاتی جدوجہد ، جنگی اور مادّی جدوجہد سے کہیں زیادہ مؤثر ،گہری اور عمیق ثابت ہوتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے دور میں ہے۔ ‘‘
٭ رابطہ عالم اسلامی کے زیر نگرانی مجمع الفقہ الاسلامي نے اپنے اجلاس میں جو شیخ عبد العزیز بن باز رحمۃ اللہ علیہ کے زیر نگرانی ۲۸/ربیع الآخر ۱۴۰۵ھ /۱۹۸۵ء کو منعقد ہوا، مصارف زکوٰۃ میں فی سبیل اللہ کی تعریف کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ
’’1. فی سبیل اللہ کے مفہوم میں وسعت ہے، جس پر سورۃ البقرۃ کی آیت ۲۶۲ اورسنن ابو داود کی حدیث ٭وغیرہ دلالت کرتی ہیں ۔ 2. مسلح جہاد سے اللہ کا کلمہ بلند کرنا مقصود ہوتا ہے اوریہی مقصد دعوت الیٰ اللہ اور اشاعت ِدین کے کاموں سے بھی پورا ہوتا ہے، چنانچہ یہ دونوں
___________________
٭ اُمّ معقل اسدیہ کو نبی کریم نے اس اونٹ پر حج کرنے کا حکم دیا جسے ان کے شوہر نے (زکوٰۃ میں ادا کرتے ہوئے) فی سبیل اللہ وقف کردیا تھا، اور فرمایا کہ حج بھی فی سبیل اللہ ہی ہے۔ مختصراً (سنن ابو داود:۱۹۸۹ ) علامہ البانی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے (صحیح سنن ابو داود:۱۷۵۲) جبکہ امام شوکانی ؒنے اس حدیث کو اضطراب اور سند میں متکلم فیہ راوی کی بنا پر ضعیف قرار دیا ہے۔ (نیل الاوطار: ۴/۱۸۱)