کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 18
نے ایک عورت کا مال زکوٰۃ ان ٹولیوں کو دینے سے انکار کردیا جو الٰہی مقاصد کی بجائے لسانی وقومی عصبیات یا لوٹ مار کے لئے جنگ وجدل کیا کرتے تھے۔ (تفسیر قرطبی: ۸/۱۸۵) علاوہ ازیں جہاد کا لفظ جہاں قتال کی تیاریوں کو شامل ہے، وہاں یہ اصطلاح غلبہ دین کے لئے بروئے کار لائی جانے والی تمام سرگرمیوں کو بھی حاوی ہے جیسا کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ٭ ((أفضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر)) (سنن ابو داود:4344) ’’ظالم وجابرسلطان کے سامنے عدل وانصاف کا کلمہ کہنا بہترین جہاد ہے۔‘‘ ٭ ((جاہدوا المشرکین بأموالکم وأنفسکم وألسنتکم)) (سنن ابو داود:2504) ’’اپنے مال، جان اور زبان کے ساتھ مشرکوں سے جہاد کرو۔‘‘ ٭ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کے بے عمل لوگوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ((فمن جاھدھم بیدہ فھو مؤمن ومن جاھدھم بلسانہ فھو مؤمن ومن جاھدھم بقلبہ فھومؤمن ولیس وراء ذلک من الإیمان حبۃ خردل)) ’’جو آدمی ان سے ہاتھ سے جہاد کرے، وہ مؤمن ہے، جو اپنی زبان سے جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے اور جو دل سے ان کے ساتھ جہاد کرے وہ بھی مؤمن ہے۔ البتہ اس کے بعد رائی کے دانے کے برابر ایمان نہیں ہے۔‘‘ (صحیح مسلم:50) ان احادیث میں جہاد فی سبیل اللہ کو زبان، ہاتھ، مال اور دل تمام اعضا سے منسوب ومتعلق فعل قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاد غلبہ دین کے لئے ہر نوعیت کی ایسی کوشش کو شامل ہے جس میں دو طرفہ شرکت پائی جائے۔ جیساکہ انسان کا نفس امارہ اس کو برائی کی طرف راغب کرتا ہے تو ا س کو نظر انداز کرکے اللہ کے احکام کی پاسداری کرنا بھی جہاد ہے: ٭ سمعت رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم المجاھد من جاھد نفسہ (سنن ترمذی:1621) ’’میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے: ﴿ فلا تطع الکفرین وجاہدہم بہ جہاد کبیرا﴾ (الفرقان : ۵۲) ’’کافروں کے پیچھے لگنے کی بجائے ان سے قرآن کے ساتھ عظیم جہاد کیجئے۔‘‘ جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’ہ‘ کی ضمیر سے مراد قرآنِ مجید ہے۔اور یہ مکی سورۃ کی ایک آیت ہے جبکہ قتال کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : الجہاد المکي بالعِلْم والبیان والجھاد المدني مع المکي بالید والحدید