کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 17
’’ ایک رات اور ایک دن کو اللہ کی راہ میں گزانا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے ۔‘‘ (( لا یجتمع غبار فی سبیل اللّٰه ودخان جہنم )) ( سنن ترمذی : 2311 صحیح ) ’’ فی سبیل اللہ پڑنے والا غبار اور جہنم کی آگ کسی مسلمان پر جمع نہیں ہو سکتیں ۔‘‘ ((لا تحل الصدقۃ لغني إلا لخمسۃ: لِغاز في سبیل اللّٰه أو لعامل علیہا أو لغارم أو لرجل اشتراہا بمالہ أو لرجل کان لہ جار مسکین فتصدق علی المسکین فأہداہا المسکین للغني )) (صحیح سنن ابو داود: ۱۴۴۱) ’’زکوٰۃ مالدار شخص کے لئے حلال نہیں ہے ماسوائے پانچ افراد کے: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والا، زکوٰۃ کو جمع کرنے والا، مقروض شخص، مالِ زکوٰۃ کو خریدکر استعمال کرنے والا یا ایسا شخص جس کا ہمسایہ مسکین آدمی ہو، اسے مال زکوٰۃ سے ملے تو وہ ہمسایہ اس مال زکوٰۃ سے اپنے مال دار ہم سائے کو تحفہ دے دے، یعنی تحفہ کی شکل میں ملنے والا مالِ زکوٰۃ۔‘‘ لغات الحدیث کے امام علامہ ابن اثیر جزری رحمۃاللہ علیہ فی سبیل اللہ کی وضاحت میں لکھتے ہیں : ’’ جب فی سبیل اللہ کا لفظ مطلق ذکر ہوتو اس کا اطلاق جہاد پر ہوتا ہے ، حتی کہ کثرت استعمال کی وجہ سے یہ لفظ گویا جہاد فی سبیل اللہ کے لیے مخصوص ہو چکا ہے ۔‘‘ ( النہایۃ : 2/338) چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، شافعیہ رحمۃ اللہ علیہ ، حنابلہ رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ طبری رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ، حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ ، ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ ، ابو عبید قاسم رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ قرضاوی، ڈاکٹر وہبہ زحیلی اور سعودی مجلس افتاء کے نزدیک اس سے مراد جہاد فی سبیل اللہ٭ ہی ہے۔ (فقہ الزکوٰۃ:۱/۶۴۱،۲/۲۵۷؛الفقہ الاسلامی وادلتہ: ۲/۸۷۴، بدایہ:۱/۳۲۵، نیل الاوطار۳/۱۳۱) اس موضوع کی لمبی چوڑی تفصیلات کا خلاصہ یہی ہے جسے اوپر مختلف علما کے حوالے بیان کردیا گیا ہے، مکمل تفصیلات کے لئے دیکھئے فقہ الزکوٰۃ:ج۲/ص۱۲۵ تا ۱۶۶ یہ امر واضح ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ سے مراد محض عملی جنگ (قتال) نہیں ۔ اوّل تو اس سے مراد ایسی جنگ ہے جو اللہ کے کلمہ کو بلند کرنے کے لئے ہو یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ___________________ ٭ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور ائمہ رحمۃ اللہ علیہ سلف کی عظیم اکثریت کی رائے یہی ہے کہ مصارف زکوٰۃ سے متعلق آیت میں فی سبیل اللہ سے مرادوہ مجاہدین ہیں جو رضاکارانہ طورپر کفر کے خلاف لڑتے ہیں ۔ سرکاری خزانے سے ان کو باقاعدہ تنخواہیں نہ ملتی ہوں ۔‘‘ (تفہیم المسائل از مولانا گوہر رحمن:۲/۱۱۵) جن فوجیوں کو باقاعدہ تنخواہ ملتی ہو، ان کا زکوٰۃ میں کوئی حصہ نہیں ، البتہ شافعیہ کا دوسرا قول یہ بھی ہے کہ بیت المال میں رقم نہ ہونے کے سبب اگر اُنہیں کچھ نہ مل رہا ہو تو اس صورت میں جائز ہے۔(المغنی: ۶/۴۳۶، حاشیہ ابن عابدین: ۲/۶۱، فتح القدیر: ۲/۱۷، الشرح الکبیر مع الدسوقی: ۱/۴۹۷، المجموع: ۶/۲۱۲، ۲۱۳،موسوعہ فقہیہ:۲۳/۳۲۳)