کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 16
ادائیگی نہیں ہوتی۔ان اداروں کے تشخص اور رجحانات کے لئے ان کی ویب سائٹس کا ایک بار مطالعہ ہی کافی ہے : www.educatepakistan.com; www.read.org.pk; www.alizaibfoundation.org 2. دینی اداروں کو زکوٰۃ دینا چونکہ دینی ادارے بنیادی طورپر دین کے فروغ کے لئے کام کرتے ہیں ، اس لئے ان اداروں میں شریعت کے احکام کی پاسداری کی زیادہ سے زیادہ کوشش کی جاتی ہے۔ پھر ان اداروں کے ذمہ داران شریعت کے احکامات سے واقف اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں ، اس لئے یہاں زکوٰۃ کو شرعی مصارف میں ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض دینی مدارس تو اس دعویٰ کے ساتھ ہی زکوٰۃ وصول کرتے ہیں کہ ان کے ہاں غریب،یتیم، نادار یا مسافر طلبہ پر زکوٰۃ صرف کی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ فقیر ومسکین اور مسافر لوگ زکوٰۃ کے مصارف میں ہی شامل ہیں ۔ بعض دینی مدارس ان طلبہ کی طرف سے نیابتا ً زکوٰۃ وصول کرکے ان کے مصارف پر خرچ کرنے کی ذمہ داری ادا کرنے کا موقف رکھتے ہیں ۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اس زکوٰۃ کو اساتذہ کے مشاہروں ، تعمیر اور دیگر انتظامی اخراجات پر استعمال نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ مدارس کی رسیدوں میں بھی عموماً صدقہ کی نوعیت کا تذکرہ کرنے کے بعد ہرنوعیت کے حسابات (اکاؤنٹ) جدا گانہ ہوتے ہیں ۔ لیکن ہمارے خیال میں دینی اداروں کو اس تکلف میں پڑنے کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ زکوٰۃ کے مصارف میں ’فی سبیل اللہ‘ کی مد ایسی ہے جو غلبہ اسلام کے لئے بروے کار لائے جانے والے تمام پہلوؤں کو شامل ہے۔ یہ بھی واضح رہے کہ فی سبیل اللہ کسی فرد کے حق کی بجائے ایک مکمل مد کی حیثیت رکھتی ہے جس پر ’فی‘ کا لفظ واضح دلالت کررہا ہے۔ ’فی سبیل اللہ‘ کا مفہوم ومدعا موضوع کے اس دوسرے پہلو کو مکمل کرنے کے لئے ’فی سبیل اللہ‘ کا مفہوم اور اس حوالے سے بعض اہم تصورات کو مختصراً جاننا ضروری ہے۔ فی سبیل اللہ سے مراد ’جہاد فی سبیل اللہ ‘ ہے جیسا کہ اس کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے :فرمان نبوی ہے : ((لغدوةفي سبيل الله أو روحة خير من الدنيا وما فيها ))(صحیح بخاری : 2583)