کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 14
دونوں کام برابر نہیں ہوسکتے۔‘‘ اس آیت ِکریمہ میں بیت اللہ اور حاجیوں سے متعلقہ فلاحی کاموں کا اللہ پر ایمان لانے اور اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لئے محنت کرنے والوں سے ایک تقابل پیش کیا گیا ہے اور اللہ نے ایسے فلاحی کام کو بھی خالص نیکی کے کام کے مساوی قرار نہیں دیا چہ جائیکہ عام رفاہی اور فلاحی کاموں کو خالص دینی کاموں پر ترجیح دی جائے ۔بلکہ زکوٰۃ کے صحیح حقدار وہ ادارے ہیں جو زکٰوۃ کا مال اس کے اصل مستحقین تک پہنچاتے ہیں یا وہ ادارے جو دینی تبلیغ و تعلیم کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہیں جس سے سیکولر حکومتیں بالکل تہی دامن ہیں ۔ الغرض مصارفِ زکوٰۃ کے بارے میں اس کوتاہی کا ہمیں خود بھی اِدراک کرتے ہوئے اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی بتانا چاہئے کہ اسلام اس سلسلے میں ہم سے کیا تقاضا کرتا ہے۔ فی زمانہ گلوکاروں کے یہ ہسپتال زکوٰۃ کا صحیح مصرف نہیں ہیں کیونکہ ٭ ان میں غیرمسلم اور بے نماز وفاسق لوگوں پر مالِ زکوٰۃ صرف کیا جاتا ہے۔ ٭ یہاں زکوٰۃ کو غریب کی بجائے امیر وغریب کے مشترکہ مصالح مثلاً عمارت ومشینری پر بلادریغ خرچ کیا جاتاہے۔ ٭ اس مالِ زکوٰۃ کو اشتہاری مہمات اور لمبے چوڑے انتظامی اخراجات پر لگایا جاتا ہے۔ ٭ ان اداروں کا مقصد اگر غلط نہیں تو ان کا ذریعہ او روسیلہ ضرور گناہ پر مبنی ہے، جس کے بد اثرات سے ان کے اچھے کام بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ملک بھر کے معتمد دینی مدارس کا فتویٰ مذکورہ بالا وجوہ کی بنا پر ملک کے معتمد دینی مدارس کے ادارہ ہائے افتاء نے یہی فتویٰ دیا ہے کہ اس نوعیت کی این جی اوز کی سرگرمیاں زکوٰۃ کا صحیح مصرف نہیں ہیں ، اس لئے ان پر زکوٰۃ کو صرف کرنا درست نہیں ۔ چنانچہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مفتی حمید اللہ جان لکھتے ہیں : ’’بے دین لوگ جن کو مذہب سے حقیقی واسطہ نہیں اور بے دینی پھیلانا، بے حیائی کی اشاعت ہی ان کا پیشہ ہے، ان کی کسی قسم کی امداد جائز نہیں ہے۔ انسانی ہمدردی اور ہسپتالوں کے نام پر آج کل جو لوٹ کھسوٹ شروع کرکے زکوٰۃ کو جمع کیا جارہا ہے، جبکہ ان کے ہاں شرعی طریقہ