کتاب: محدث شمارہ 315 - صفحہ 10
’’ حنفی فقہاء کا اتفاق ہے کہ زکوٰۃ کو شخصی ملکیت بنانا ضروری ہے اور زکوٰ ۃ کو کسی بھی اسے کام میں صرف کرنا درست نہیں ہے جس میں تملیک نہ ہو ۔‘‘ زکٰوۃ کی رقم مارکیٹنگ اور تعیشات ونمائش پر صرف نہیں کی جاسکتی 4. چند سالوں سے جن ہسپتالوں نے زکوٰۃ جمع کرنے کے کام کو پیشہ وارانہ بنیادوں پر شروع کیا ہے، ان کے ہاں زیادہ سے زیادہ زکوٰۃ جمع کرنے کے لئے بھاری اخراجات پرمشتمل مارکیٹنگ مہم شروع کی جاتی ہے۔ ان کی کامیابی کا سارا انحصار زیادہ سے زیادہ اور ہمہ جہتی ایڈورٹائزنگ پر ہوتا ہے۔ ایسے ہی ان اداروں کے ’زکوٰۃ وصدقات سیکشن‘ کے عملے کے بھاری اخراجات اور لاکھوں روپے کی تنخواہیں ہوتی ہیں ۔ جبکہ اسلام میں نہ تو تنخواہوں کے نام پر مالِ زکوٰۃ پر اس تعیش کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی کسی مارکیٹنگ مہم کی کوئی ضرورت۔ مارکیٹنگ کے ان غیرمعمولی اخراجات کو مالِ زکوٰۃ کی مد سے صرف کرنا شریعت کے منشا سے تجاوز ہے۔ انسانی صحت کے ان اداروں کا یہ لادین کلچر روحانی ومذہبی صدقات کے موزوں استعمال کے لئے نا مناسب ہے۔ یہ جدید پرائیویٹ ہسپتال جس طرح اشتہاری مہم چلاتے ہیں ، اور اس سلسلے میں میڈیا کے ہرذریعے کو استعمال کرتے ہیں ، اس پر اُٹھنے والے اخراجات کا اندازہ کسی ایسے ادارے کے مارکیٹنگ بجٹ کو دیکھ کر بخوبی کیا جاسکتا ہے۔مالِ زکوٰۃ کے ذریعے پرآسائش سہولیات اور لمبی تنخواہیں لینے کا بھی کوئی جواز نہیں۔زکوٰۃ کا یہ مال نمود ونمائش اور اسراف وآسائش کی بجائے سادگی اور متانت سے شریعت کے متعین کردہ مصارف میں ہی خرچ ہونا چاہئے۔ جدید ہسپتالوں کا ذریعۂ آمدنی اسلام سے متصادم ہے 5. اس وقت جس نوعیت کے ادارے زکوٰۃ جمع کرنے کی مہم میں زیادہ سرگرم ہیں ، نہ تو ان کے ہاں یہتصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ شریعت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے زکوٰۃ کو شرعی مصالح