کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 9
رمضان کی ایک تاریخ کو بھی اپنی مرضی سے تبدیل کردیا جائے تو اس سے آخری تمام عشرہ کی طاق راتیں اپنے اصل مقام سے ہٹ جائیں گی۔ اور طاق راتوں میں عبادت نہ کرنے کا نتیجہ اس رات کی فضیلت سے محرومی کے سوا اور کیا ہوگا؟ اس لئے مختلف ایام سے منسوب مختلف فضائل وبرکات کو پانے کے لئے عین انہی ایام کو اُن کے اصل وقت پر حاصل کرنا اور انہیں تلاش کرنا ہی ضروری ٹھہرتا ہے۔ ایسے ہی اسلام میں دنوں کی تعداد کو بھی قمری مہینوں پر ہی منحصر کیا گیا ہے چنانچہ عدت کے ایام، زکوٰۃکا سال اور ایامِ رضاعت وغیرہ میں ہجری مہینوں کو ہی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ 3. شبہ:بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہجری نظام قابل عمل نہیں ، اس سے ماہِ رمضان کے تعین میں اس قدر دشواری پیش آتی ہے تو پوراسال کس طرح اس پر انحصارکیا جاسکتا ہے ؟ کسی بھی نظام کے قابل عمل ہونے کا فیصلہ اس کو جاری کرنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔ اگر عملی طورپر ایک نظام جاری وساری ہو اور اس میں کہیں کہیں دوسرے نظام کے پیوند لگائے جائیں تو وہ عملی پیچیدگیوں کے علاوہ کسی بھی انسان پر خوش کن تاثر نہیں چھوڑے گا۔ ہجری تقویم ہی وہ اصل نظامِ تاریخ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے وضع کرکے اُنہیں اس کا پابند کیا ہے، اور اللہ کے دیے نظام میں کوئی خرابی ہونا ممکن نہیں ۔ اگر اس میں کسی مقام پر کوئی خرابی ہے تو یہ سب ہماری کوتاہی یا بد تدبیری کا کیا دھرا ہے…! اسلامی مہینوں پر انحصار تو دورِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے جاری ہے، جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع کے بعد سالِ ہجرت سے سالوں میں بھی شمار کرنے کا اقدام کردیا تھا۔ اس کے بعد سے ۱۳ صدیاں ، جب تک مسلمان سیاسی مغلوبیت سے دوچار نہیں ہوئے، اس وقت تک یہ نظام بخیر وخوبی مسلمانوں کی تمام ضروریات کو پورا کرتا رہا۔ آج بھی مسلم ہند میں اسلامی حکومت کے اقدامات کا تذکرہ ہجری تقویم کے مطابق ہی تاریخ کے اَوراق میں محفوظ ملتا ہے۔ عیسوی تقویم دراصل مغربی استعمار کا شاخسانہ ہے۔ ۱۹۲۶ء میں مصطفی کمال اتاترک نے استبدادی حکم کے ذریعے عین اس طرح ہجری تقویم کو کالعدم قرار دیا تھا، جس طرح اس نے ترکی کو عربی رسم الخط میں لکھنے، ہیٹ کو لازمی کرنے اور عربی میں اذان کو ممنوع ٹھہرایا تھا، تاکہ