کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 80
کی وکالت اور جواب الجواب کا تماشا رچایا جائے۔ اس طرح ایک جانب اپنے ممدوح کی خدمت اور دوسری جانب اپنی ’معروضیت‘ کا رعب جمایا جاسکے۔ اگر آپ اپنے ولی عہد کے ہاتھوں مجبور ہیں تو اُنہیں حق دیں کہ وہ اپنا الگ پرچہ نکالیں ، ہم کون ہوتے ہیں ان کے قلم کو توڑنے والے، لیکن خون کے رشتہ کے بل پر کسی دینی پرچے میں ’فکری پیشوائیت‘کی گنجائش نہیں ۔ قبل ازیں ان کے رسالے ’اشراق‘، ’تذکیر‘، ’سوئے حرم‘ وغیرہ نکل رہے ہیں ، چلئے ایک ماہنامہ’عمار‘ بھی سہی، مگر ’الشریعہ‘ میں بے جافکری تجاوزات کا حتیٰ کہ آپ کوبھی حق نہیں ۔ ٹھیک ہے، اگر آپ چاہتے ہیں تو پھر حضرت سرفراز خان صفدر، حضرت سواتی کے نام باقاعدہ اعلان کرکے اپنے پرچے کے پیشانی سے اُتار دیجئے، اور اعلان فرمائیے: ’’میں اورمیرا بیٹا، اس صدی کے سینٹ پال کی اطاعت میں جاتے ہیں ۔‘‘ یہ آپ کا حق ہے! حالانکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا صاحب آپ ایسے نہیں ہیں ، آپ اولاد کی محبت میں لاچار اور مجبور ہیں ۔مگر کیا بقر عید کی قربانی محض گوشت کرنے،بنانے اور کھانے کی رسم ہے یا اس کے کوئی عملی تقاضے بھی ہیں …!! اسی طرح آپ کے رسالے میں ایک مخبوط القلم فرد محمد یوسف ایڈووکیٹ کے نام سے ثقاہت کا قتل عام کرتے اور کثافت ِفکری کے ڈھیر لگاتے دکھائی دیتے ہیں ۔ معلوم نہیں ان صاحب کو غصہ علماے کرام پر ہے، یا جماعت ِاسلامی ان کی نفرت کا نشانہ ہے یا ایم ایم اے ان کی بغض کا شکار ہے۔ جو بھی ہو، یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ ان صاحب کا اُسلوب ِتحریر کسی نفسیاتی عارضے میں مبتلا فرد کی چیخ و پکار سے زیادہ کوئی قدر نہیں رکھتا۔ تازہ شمارے میں اُنہوں نے جس طرح مفتی تقی عثمانی صاحب کو نشانہ بنایاہے، کاش آپ اس مضمون کی اشاعت سے قبل حضرت مفتی صاحب سے وضاحت لے لیتے۔ میں سمجھتا ہوں ، فکر اور علم کی ایسی کٹی ہوئی پتنگ کو آپ اُڑا کر ’الشریعہ‘ کے قارئین پرمزید ظلم فرما رہے ہیں ۔ آپ کو اس خط پرجوبھی غصہ آیا ہو، اس پرمیں معذرت خواہ نہیں ہوں ، بلکہ یہ آپ کی خیرخواہی میں لکھاگیا ہے۔’المورد‘ کے مفتی اعظم جناب عمار خان ناصر کی خدمت میں سلام و دعا حافظ بدرالدین ۱۴جولائی،۲۰۰۷ء ۳۲۲/اے ون ،ٹاؤن شپ، لاہور