کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 7
تدریجا ًمکمل ہونا اور اگلے چودہ روز میں تدریجا چاند کا گھٹنا ایک ایک تاریخ کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہرشام چاند کا نئے مقام پر طلوع ہونا بھی اس کی تاریخ معلوم کرنے میں مددگار ٹھہرتا ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس میں کوئی انسان تبدیلی نہیں کرسکتا، اور جو کسی نگہداشت کا محتاج نہیں ہے۔ دوسری طرف انسانوں کا خودساختہ عیسوی کیلنڈر ہے جس کو تمام تر تحفظ صرف ایک تسلسل اور ریگولیٹری اتھارٹی نے دے رکھا ہے۔ اگر کسی وجہ سے کسی انسان کا یہ تسلسل منقطع ہوجائے مثلاً وہ کسی جزیرے میں جا پہنچے جہاں ذرائع مواصلات و علم اس کو آگاہ نہ کرسکیں تو وہ تاریخ کا اِدراک کبھی نہیں کرسکتا جبکہ اللہ کے بنائے ہوے نظام کا ہر رات چاند کے مشاہدے سے ہی علم حاصل ہوجاتا ہے۔ اگر کہیں پہلی تاریخ کے تعین میں کوئی غلطی بھی ہوجائے تو ۱۴، ۱۵ تاریخ کا روشن چاند اس کی اصلاح کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔
چاند کا یہ نظام ان قطبی علاقوں میں بھی کارآمد ہے، جہاں سورج چھ چھ ماہ طلوع یا غروب ہی نہیں ہوتا، کیونکہ ان علاقوں میں سورج کے برعکس چاند باقاعدگی سے نظر آتا رہتا ہے۔ سمندروں کے مدوجزر بھی اسی چاند کی تاریخوں سے منسلک ہیں جس سے انسانوں کے سفر اور تجارت کے اُمور کا گہرا تعلق ہے۔ خواتین کے ایام بھی اس سے ایک اِرتباط رکھتے ہیں ۔ اور سب سے بڑھ کرچاند کی بنا پر تاریخوں کو سمجھنے سے ہر قسم کے موسم میں اسلامی عبادات بجا لانا ممکن ٹھہرتا ہے۔ نہ تو رمضان یا حج کا موسم ہمیشہ سردیوں میں آئے اور نہ ہی ہمیشہ گرمیوں میں !
ماضی میں کیلنڈر بادشادہ یا مذہبی رہنما جاری کیا کرتے تھے اور وہ اپنی پسند کے مطابق اس میں تبدیلیاں کرتے رہتے۔ یہی صورتحال عیسوی کیلنڈر کی بھی ہیجو کئی تبدیلیوں کا نشانہ بنتا رہا۔ عیسوی تقویم جس پوپ گریگوری کے نام سے منسوب ہے، اُس نے ماضی کی متعدد غلطیوں کی اصلاح کے لئے ۱۵۸۲ء میں اس سے ۱۳ دن کم کردیے، پھر پوپ بینڈکٹ چہارم نے ۱۷۵۲ء میں مزید ۱۱ دن کم کیا۔ آئندہ بھی ہر ۱۲۸ سال بعد اس کیلنڈر سے ایک دن کو مصنوعی طورپر کم کرنے کی ضرورت برقرار رہتی ہے۔ جبکہ اسلامی تقویم میں یہ اختیار کسی انسان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ سے اس کی تاریخوں کا از خود تعین ہوتا رہتا ہے۔ اگر کہیں انسان غلطی بھی کرجائیں تو اگلے ماہ کا چاند ازخود اس کی اصلاح کردیتا ہے۔