کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 6
جہاں تک سورج کی بات ہے تو اللہ تعالیٰ نے اسے دن کے اوقات کے لئے معیار اورپیمانہ بنایا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں نمازوں کے اوقات کے لئے اللہ تعالیٰ نے سورج کو معیار مقرر فرمایا اور نمازِفجر، نمازِ عید، اشراق، ظہر، عصر اور مغرب وعشا کے اوقات کو سورج سے ہی مربوط کیا گیاہے۔ قرآن میں ہے: ﴿اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ إِلٰی غَسَقِ اللَّیْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ﴾ ’’سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک نماز قائم کیجئے۔ اور فجر کے وقت قرآن کی تلاوت کریں ۔‘‘ (بنی اسرائیل:۷۸) ایسے ہی نمازوں کے اوقات کو سائے سے منسلک کرنے کا تذکرہ کئی احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے۔ روزہ کی سحری اور افطاری بھی چونکہ ایک روز مرہ معاملہ ہے، اس لئے اس کو بھی سورج کے طلوع وغروب سے ہی منسلک کیا گیا ہے۔ چنانچہ عیسوی تقویم جس میں تاریخ کی تبدیلی کا انحصار سورج پر ہے، نظامِ فطرت سے تجاوز اور اللہ سے بغاوت ہے کیونکہ اللہ نے سورج کو اس مقصد کے لئے پیدا ہی نہیں کیا۔ انسانوں نے سورج کو اس بنا پر یہ حیثیت دی ہے کہ موسموں کی مناسبت سے پیدا ہونے والے فوائد ونقصانات پر اپنے معمولات کو ترتیب دیا جاسکے۔ البتہ ماضی میں تمام اَقوام کے ہاں چاند کو ہی تاریخ میں بنیادی حیثیت دی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف زبانوں میں مہینہ کا نام چاند سے ہی ماخوذ ہے مثلاً انگریزی میں Month، مون سے، فارسی میں مہینہ، ماہ سے اور ہندی میں ماس، اَماوس سے نکلا ہوا ہے۔ آج بھی غیر مسلم اقوام کے کئی تہوار شمسی تاریخوں کی بجائے چاند کی تاریخوں پر ہی منحصر ہیں مثلاً عیسائیوں کے ہاں ایسٹر، یہودیوں کے ہاں عاشور اور ہندووں کے ہاں دیپاولی کے تہوار چاندکی تاریخوں کی بنا پر ہوتے ہیں ۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ چاند ہی تقویم کا اصل مرکز رہا ہے۔ آج کل چونکہ لوگوں کا نظامِ فطرت کا مشاہدہ بڑا کمزور ہوچکا ہے، اس لئے اس بات کی نشاندہی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ چانداللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین کی پیشانی پر روزانہ کاایک نمایاں کیلنڈر ہے جس کے ذریعے مہینے کی ہر تاریخ کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔ چاند کی اٹھائیس منزلیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر ہرتاریخ کا کھلا اعلان ہیں ۔ پہلے ۱۴ روز میں چاند کا