کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 5
سے ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس بے جا تکلف کو نظر انداز کرکے زمینی حقائق اور اُصولِ فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے مصنوعی اشتراک قائم کرنے کی بجائے حقیقی تاریخ کا اشتراک برقرار رکھا ہے اور وہ یہ کہ جن عوامل کی بنا پر رات دن میں تبدیلی ہوتی ہے، تاریخ کی تبدیلی کو بھی اُنہی پر منحصر سمجھا جائے اور ہردن کو وہی تاریخ دی جائے جواس کی حقیقی اور فطری تاریخ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یکم رمضان المبارک کو ہی دنیا بھر میں پہلا روزہ ہوتا ہے اور جہاں پہلے روزہ کا چاند نظر آجائے، وہاں رمضان کا آغاز سمجھ لیا جائے۔ عیسوی تقویم کو بلاوجہ ہجری تقویم پر برتر سمجھتے ہوئے اس کی خودساختہ تاریخ میں اشتراک پراصرار کرنا مسلمانوں کو زیب نہیں دیتا !!
2. شبہ: عیسوی تقویم مستند اور قابل عمل ہے، اس میں بظاہر کوئی خرابی اور پیچیدگی نظر نہیں آتی۔ مسلمان اس کو کیوں اختیار نہیں کرلیتے، کیوں بلاوجہ ہجری تقویم پر اصرار کرتے ہیں جس کی بنا پر اختلافات رونما ہوتے ہیں ؟
مسلمان اللہ کو ماننے والے اور شریعت ِمحمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکارہیں ۔اللہ جو کائنات کا خالق ومالک ہے، اس نے دنیا کو چلانے کے لئے جواُصول مقرر کردیے ہیں ، ان کو نظر انداز کردینا جہاں از روئے ایمان درست نہیں ، وہاں یہ نظامِ فطرت سے بھی کھلی بغاوت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک دن کے داخلی اوقات کا حساب سورج پر اور تاریخوں اورمہینوں کاحساب چاند پر منحصر رکھا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے: ﴿یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الاَھِلَّۃِ قُلْ ھِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَجِّ﴾
’’یہ آپ سے ’نئے چاندوں ‘ کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ آپ بتادیجئے کہ نئے چاند لوگوں کے لئے مدت کے شمار اور حج کے ایام معلوم کرنے کا ذریعہ ہیں ۔‘‘ (البقرۃ: ۱۸۹)
ایک اور مقام پر اسی بات کوقرآنِ کریم میں اللہ نے اپنی نشانی قرار دیتے ہوئے فرمایا :
﴿وَہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَآئً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السَّنِیْنَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّٰه ذَلِکَ اِلَّا بِالْحَقِّ یُفَصِّلَ الآیَاتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ﴾ (یونس: ۵)
’’اللہ تو وہ ذات ہے جس نے سورج کو تیز روشنی والا اور چاند کو نوربنایا۔ اور اس نے چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم اس سے سالوں اور روزمرہ کا حساب لگاؤ۔ اللہ نے یہ چیزیں بے کار ہی پیدا نہیں کردیں ۔ وہ اپنی نشانیاں عقل مندوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتا ہے۔‘‘