کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 4
مصنوعی طورپر لازماً عیسوی تاریخ کوتبدیل کرلیا جاتا ہےتاکہ تاریخوں میں مصنوعی اشتراک برقرار رہ سکے۔٭ اس بنا پر جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے تہوار ایک دن شروع نہیں ہوتے، ان کے تہوار بھی دنیا بھر میں ایک وقت اور ایک دن میں منعقد نہیں ہوپاتے۔ دنیا بھر میں کسی تقریب کو مشترکہ طورپر دن کے ۱۰ بجے تو شروع کیا جاسکتا ہے لیکن کیا دنیا میں ایک ہی وقت پر ۱۰ بج جاتے ہیں ، ظاہر ہے ایسا نہیں ۔اسی طرح چونکہ عیسوی تقویم میں تاریخیں خود ساختہ ہیں ، اس لئے ان تاریخوں کو بھی مصنوعی طورپر ایک قرار دیا جاتا ہے، جبکہ درحقیقت دنیا بھر میں ایک ہی تاریخ تو کجا، دن اوررات کاایک وقت پر شروع یا ختم ہونا ہی سرے سے ممکن نہیں ! اسلام جس حقیقی اور فطری تقویم کا داعی ہے، انہی فطری اُصولوں کے پیش نظر یہاں اُصولاً یہ امر ناممکن ہے کہ تمام دنیا ایک ہی وقت اور دن میں کوئی تہوار منعقد کر سکے۔ مثلاً ہجری تقویم کے مطابق نئے ماہ کا آغاز مغرب کے بعد رؤیت ِہلال سے ہوتا ہے۔ جس وقت دنیاکے ایک خطے (لاہور) میں چاند نظر آتا ہے یعنی مغرب کے وقت تو اسی وقت دنیا کے ایک دوسرے خطے (شہر میکسیکو) میں صبح کے ۹ بج رہے ہوتے ہیں ۔ ان لوگوں کو اگر چاند نظر آنے کی اطلاع بھی دے دی جائے تو صبح کے ۹بجے عید کی نماز کا مستحب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ کسی مقام پر صبح نو بجے نہ تو روزہ کا آغاز کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بلا عذر عید کی نماز پڑھی جاسکتی ہے۔اس لئے زمینی حقائق کی بنا پر دنیا بھر میں ایک ہی دن روزہ رکھنا ممکن ہی نہیں ۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک جگہ رمضان کی ابتدا جمعہ کی شام سے اور دوسری جگہ ہفتہ کی صبح _______________ ٭ ۱۸۸۲ء میں واشنگٹن میں منعقدہ ایک کانفرنس میں ۲۵/ اقوام نے لندن کے علاقے ’گرینچ‘ کو دنیا کا مرکز وقت مان کر اس مقام کو مشرق ومغرب کے لئے حد ِفاصل قرار دیا تھا۔ اس بنا پر طول بلد و عرض بلد مقرر کئے گئے اور اس قصبے کے نصف النہار یعنی ۱۲ بجے کے وقت کو بنیادی معیار تسلیم کیا گیا۔ گرینچ کے بالمقابل زمین کی بالکل دوسری سمت کھینچے جانیوالے فرضی خط کو ’خط ِ تاریخ‘ قرار دیا گیا، یعنی یہ رات کے ۱۲ بجے کا معیاری وقت قرار پایا۔ چنانچہ اس خط کو جو بھی دن کے کسی حصے میں بھی عبور کرے تووہ فرضی طورپر تاریخ میں تبدیلی کرلیتا ہے اس طرح عیسوی کیلنڈر میں مصنوعی طورپر اوقات کی تقسیم کے علاوہ تاریخ کا مصنوعی اشتراک بھی پیدا کیا گیا ہے۔ قمری کیلنڈر میں بعض ممالک میں دو روز کا فرق پڑنے کی ایک وجہ یہ مصنوعی اُصولِ تاریخ بھی ہے۔