کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 3
ایک مستند، فطری اور الٰہی تقویم کو انسانوں کے خود ساختہ اُصولوں پر مبنی تاریخوں سے پرکھنا کہاں کا انصاف ہے؟ یہ اعتراض کیوں نہیں کیا جاتا کہ کرسمس کو ایک ہی تاریخ پر منانا چاہئے جیسا کہ اس سال کرسمس کا دن بعض ممالک میں ۱۴ ذو الحجہ کو منایا جائے گا توبعض میں ۱۵ ذوالحجہ کو۔ ظاہر ہے جس طرح یہ اعتراض درست نہیں ، اس طرح ہجری تقویم پر اعتراض کرنا بھی درست نہیں !! یوں بھی یہ تقاضا عملاً درست نہیں بلکہ ناممکن ہے کیونکہ روز و شب کی تبدیلی کے پس پردہ محرک قدرتی عوامل یعنی زمین، سورج اور چاند وغیرہ کی حرکت کا نتیجہ دنیا بھر میں یکساں سامنے نہیں آتا۔ دنیا بھر میں نہ توایک ہی وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور نہ ہی رات چھاتی ہے۔ یہ بات بچے بچے کو معلوم ہے کہ دنیا کے ہر خطے کا وقت باقی دنیا سے مختلف ہے، یہی صورتحال تاریخوں کے بارے میں بھی ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی روز چاند کی رؤیت بھی ناممکن ہے۔ ایسا تقاضا کرنے والے لوگ اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے معمولات اور تہوار ایک ہی وقت پرشروع کرتے ہیں جبکہ اس تصور کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ ایسا ہونا عملاً نا ممکن ہے۔ البتہ انسان اپنے خودساختہ اُصولوں کے ذریعے مصنوعی اشتراک ضرور پیدا کرلیتا ہے جو ظاہراً تو ہوتا ہے، حقیقتاً نہیں ۔ چنانچہ واضح رہنا چاہئے کہ نہ تووہ تاریخیں کوئی زمینی حقیقت رکھتی ہیں اور نہ ہی وہ یومیہ اوقات (ٹائم) جنہیں انسانوں نے وضع کرکے اشتراک کا مصنوعی تصور قائم کررکھا ہے۔دنیا کے مختلف خطوں کو مختلف اوقات میں بانٹا گیا ہے جنہیں سٹینڈرڈ ٹائم (GMT)کہا جاتا ہے،اور یہ اوقات حقیقی نہیں بلکہ انسانوں کے خود ساختہ ہیں ۔رئیل ٹائم اور سٹینڈرڈ ٹائم میں بڑا فرق ہے جس میں لند ن کے ایک علاقے گرینچ Greenwichکو مرکز قرار دے کر،دنیا کے مختلف ممالک کی سرحدوں یا زمینی حدود میں وقت کو بانٹ کر وہاں ایک مصنوعی وقت کا فرضی معیار قائم کر دیا گیا ہے۔اسکی سادہ مثال یہ ہے کہ لاہور اورامرتسر میں زمینی فاصلہ تو سوکلومیٹر کے لگ بھگ ہےلیکن دونوں کے سٹینڈرڈ ٹائم میں نصف گھنٹے کا فرق ہےجبکہ لاہور اور کراچی میں ۱۲۰۰ کلومیٹر کا فاصلہ ہےلیکن دونوں کا سٹینڈرڈ ٹائم ایک ہی ہے۔یہی صورتحال تاریخوں کےبارے میں بھی ہےکہ’بین الاقوامی خط ِتاریخ‘ International Date Line پرپہنچ کر