کتاب: محدث شمارہ 314 - صفحہ 29
3. قرآن کی تفسیر خود قرآن سے کرنا اعلیٰ اور معتبر ترین تفسیر ہوتی ہے، کیونکہ ’’القرآن یُفسِّر بعضہ بعضا‘‘ کا اُصول ایک مُسلّمہ اُصول ہے۔ اس اُصول کے تحت جب ہم اس آیت کے نظائر کامطالعہ کرتے ہیں تو اِن سے بھی قرآن کامیزان ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر صرف دو آیات ملاحظہ ہو ں : (الف) ﴿ لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ﴾ (الحدید:۲۷) ’’بے شک ہم نے اپنے پیغمبروں کو نشانیاں دے کر بھیجا اور اُن کے ساتھ کتابیں نازل کیں اور ترازو بھی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں ۔‘‘ اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے ہر دور میں واضح نشانیوں کے ساتھ پیغمبر بھیجے، کتابیں نازل کیں اور ان کتابوں کے ساتھ ترازو یعنی عدل و انصاف کا تصور اور اس کے بارے میں حکم بھیجا تاکہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں اور ظلم و زیادتی سے باز رہیں ۔ مذکورہ بالا آیت سے یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ قرآن میزان ہے، کیونکہ اگر یہ مان لیا جائے کہ قرآن میزان ہے تو لامحالہ یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہ قرآن تمام پیغمبروں علیہ السلام پر نازل ہوا ہے جب کہ واقع میں ایسانہیں ہے۔ میزان تو پہلے بھی تھی اور عدل و انصاف کا تصور اور حکم پہلے بھی تھا مگر قرآن صرف اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر نازل ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن میزان نہیں ہے۔ (ب) ’میزان‘ کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کے لئے ایک نظیر یہ بھی پیش نظر رہے کہ ﴿وَالسَّمَائَ رَفَعَھَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ اَلَّا تَطْغَوْا مْ الْمِیْزَانِ وَاَقِیْمُوْا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ﴾ (الرحمن:۷تا۹) ’’اور اُسی نے آسمان کوبلند کیا اور ترازو رکھ دی تاکہ تم لوگ تولنے میں زیادتی نہ کرو بلکہ انصاف سے پورا تولو اور کم نہ تولو۔‘‘ سورۂ رحمن کی ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے آسمان کی تخلیق کاذکر فرمایا ہے اور پھر میزان یعنی ترازو رکھنے کو واضح فرمایا ہے۔ پھر یہ حکم دیا ہے کہ تول ٹھیک رکھو، پورا تولو اور تول